- کتاب فہرست 180666
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4461
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1122
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
تمام
تعارف
ای-کتاب203
افسانہ233
مضمون40
اقوال107
افسانچے29
طنز و مزاح1
خاکہ24
ڈرامہ59
ترجمہ2
ویڈیو 82
گیلری 4
بلاگ5
دیگر
ناولٹ1
خط10
سعادت حسن منٹو کے ڈرامہ
کروٹ
(میز پر کھانا چُننے اور چھری کانٹے رکھنے کی آواز) بیوی: چلیئے کھانا تیار ہے۔ لڑکی: کون آرہے ہیں؟ میاں: تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا۔۔۔ ایک عورت آنے والی ہے۔ بیوی: عورت؟ میاں: ہاں جو ہماری ہمسایہ ہے۔ لڑکی: ہمارے پڑوس میں تو کوئی عورت نہیں رہتی۔ میاں: بھولتی
تین خوبصورت عورتیں
(ایک خوبصورت بیڈ روم۔ ساگوان کے دوپلنگ پاس پاس پڑے ہیں ایک پر جمیلہ سو رہی ہے اور خراٹے لے رہی ہے۔ شکیلہ اس کو جگانے کی کوشش میں لگی ہے۔ اس کمرے کی ہر شے خوبصورت ہے۔ تین تصویریں جو لٹک رہی ہیں۔ مغربی آرٹ کے دلفریب نمونے پیش کرتی ہیں کونے میں ڈریسنگ ٹیبل
آؤ کھوج لگائیں
کشور: (اپنی بیوی سے بڑے سنجیدہ لہجے میں)۔۔۔ آؤ کھوج لگائیں۔ لاجونتی: کھوج لگاؤ گے۔۔۔تم کھوج لگاؤگے۔۔۔تم جیسے لال بجھکڑوں کی بابت ہی تو وہ کہاوت مشہور ہے۔ کشور: کون سی کہاوت۔ لاجونتی: وہ جو ہاتھی کے پاؤں کا نشان دیکھ کر ایک بجھکڑنے کہا تھا ۔۔۔
تیمور کی موت
۔۔۔ پانچ سو برس سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے جب ایک آدمی نے ساری دنیا پر قابض ہونا چاہا۔ جس کام میں اس نے ہاتھ ڈالا کامیاب ہوا ۔۔۔ نصف دنیا سے زیادہ کے لشکروں کو اس نے یکے بعد دیگرے نیچا دکھایا۔ کئی شہروں کو بیخ و بنیاد سے اکھیڑ پھینکا۔ ان کی اینٹ سے اینٹ
شاہجہان کی موت
اپنے فتح مند بیٹے محی الدین اورنگزیب کی قیادت میں جب شہاب الدین شاہجہاں نے آگرے کے دروازے کھول دیئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اپنی عُمر کا بقایا حصّہ قلعے میں ایک قیدی کی حیثیت میں گزارنا پڑا۔ شاہجہان کے لیئے جو کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کا شہنشاہ تھا
قانون کی حفاظت
افراد سالگ رام: وکیل سروپ: موکل چمپا: وکیل کی لڑکی ساوتری: وکیل کی بیوی اور منشی پہلا منظر ایک بڑا کمرہ جیسا کہ عام طور پر کامیاب وکیلوں اور بیرسٹروں کا ہوتا ہے اس کے وسط میں ایک بہت بڑا میز ہے جس پربیشمار کاغذات پڑے ہیں۔ کچھ پلندوں کی صورت میں،
تین بیمار پرس عورتیں
افراد طاہرہ۔۔۔بیمار خالہ آپا اقبال: تین بیمارپُرس عورتیں سکینہ مومن۔۔۔ طاہرہ کا نوکر پڑوسن۔۔۔ جو بیمار پُرسی نہیں کر سکتی۔ منظر: ایک بڑا کمرہ:دو پلنگ پڑے ہیں۔ جیسے عام طور پر شادی شدہ گھروں میں ہوتے ہیں۔ کمرہ سامان سے بھرا ہوا ہے۔ پلنگوں کے نیچے
ایک مرد
پہلا منظر زنانہ کالج کے ہوسٹل کا ایک کمرہ۔۔۔۔۔۔ مختصر سازو سامان، لیکن ہر چیز سلیقے اور قرینے سے رکھی نظر آتی ہے۔ کمرے کے دو حصے ہیں ایک آگے، دوسرا پیچھے ۔بیچ میں دیوار ہے لیکن اس میں دو بڑے بڑے بغیر کواڑوں کے دروازے ہیں ان میں سے ایک کمرے کا دوسرا
رندھیر پہلوان
رندھیر پہلوان: آواز موٹی اور کرخت ساوتری: زمیندار کی بھولی بھالی لڑکی۔۔۔آواز لرزاں شامو: ساوتری کا چاہنے والا۔۔۔تیز مزاج جوان خیال زمیندار: ساوتری کا باپ۔ ریا کار اور چالباز منیم : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شامو کی ماں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مادھو: رندھیر
اس منجدھارمیں
(میلو ڈراما) کردار بیگم : ماں(شکستہ) امجد/مجید : بیگم کے بیٹے(ثابت و سالم) سعیدہ : امجد کی نئی نویلی حسین بیوی اصغری : خادمہ کریم اور غلام محمد : نوکر پہلا منظر: (نگارِ ولا کا ایک کمرہ۔۔۔۔۔۔ اس کی خوبصورت شیشہ لگی کھڑکیاں پہاڑی کی ڈھلوانوں کی
تین تحفے
(فیچر) راگ اور محبت دل پر ایک جیسا اثر کرتے ہیں۔ دونوں کے سرُ ایک جیسے نرم ونازک اور تیزو تُند ہیں‘ دونوں میں تلخی وشیرینی پہلو بہ پہلو کروٹیں لیتی ہے دونوں رُوح کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ موسیقی محبت سے زیادہ طاقتور ہے........وادی نیل میں
تین خاموش عورتیں
منظر (اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرنے کا صوتی منظر۔۔۔خوانچہ فروش کا شوروغیرہ) نوٹ: ثریا بہت تیزی سے بولے جیسے کترنی چل رہی ہے۔ ثُریّا: دیکھنا کہیں کوئی چیز نہ ٹوٹ جائے۔۔۔ ساری چیزیں بڑے سلیقے سے باہر نکالو اور قرینے سے پلیٹ فارم پر رکھ دو۔۔۔ سُنتے ہو بڑے میاں۔۔۔
اکیلی
افراد سوشیلا : (ایک نوجوان عورت جس کی آواز میں رت جگے کی خرخراہٹ ہو) کشور : (ایک دولتمند آدمی۔۔۔۔۔۔ آواز میں با نکپن ہو) موتی : (ایک جذباتی نوجوان) چپلا : (ایک عام کنواری لڑکی) مدن : (کشورکا دوست) قلی : اور چار پانچ آرکسٹرا : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ریل
آؤ جھوٹ بولیں!
لاجونتی: (ایکا ایکی‘بڑے اشتیاق سے)آؤ جھوٹ بولیں! کشور: ارے۔۔۔تمہیں بیٹھے بیٹھے یہ کیا سوجھی؟ لاجونتی: نہیں ‘نہیں۔۔۔آؤ جھوٹ بولیں! کشور: پھر وہی۔۔۔جھوٹ بولیں؟۔۔۔کس سے جھوٹ بولیں؟ ۔۔۔او رپھر۔۔۔تم نے مجھے۔۔۔ لاجونتی: (بات کاٹ کر) کوئی جھوٹا سمجھا ہے‘
تلوّن
بارش کا شور........آہستہ آہستہ یہ شور شدّت پکڑتا ہے۔ نیلم: (ڈرے ہوئے لہجہ میں)کھڑکی بند کر دو جمیل........باہر رات کا اندھیرا ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہو۔۔۔اُف یہ کالی رات کتنی بھیانک ہے۔ جمیل: (جلدی سے)اتنی بھیانک
انتظار کا دوسرا رخ
افراد بلقیس : (آواز مضطراب ہو) ثُریّا : (بلقیس کی چھوٹی بہن(شریر) بلقیس کی ماں: (رعب دار آواز) بلقیس کا بھائی: بلقیس کا باپ: (چھوٹی بچی کے ہنسنے کی آواز) بلقیس: کھڑی ٹھی ٹھی ہنس رہی ہے تجھ سے جو کام کہا ہے وہ کر۔ یاد رکھ وہ کان اینٹھوں گی کہ بِلبلا
ٹیپو کی موت
جولیس سیزراورسکندرِ اعظم کے بعد دنیا کے بڑے سپہ سالار اور فاتحوں کی فہرست میں نپولین کا نام آتا ہے ۔ اسکندر اور جولیس سیزر کی فتوحات کو ایک زمانہ گزر چکا ہے ۔۔۔ آج کل نپولین کا نام ہی سب سے پیش پیش ہے کہ یورپ سے ابھی تک اس جنگ جو انسان کے دہشت ناک کارناموں
بیمار
افراد کمار : (بیمار) گڈوانی : رشید : بیدی : کمار کے دوست آتما سنگھ : مادھو : کمار کا نوکر (کھانسنے کی آواز سنائی دیتی ہے) کمار: (کھانستا ہے) مادھو۔۔۔مادھو۔۔۔(کھانستا ہے)۔۔۔مادھو۔۔۔ مادھو: (آواز دُورسے آتی ہے) جی آیا صاحب۔ کمار: ادھر آ بھاگ
تین صلح پسند عورتیں
افراد: مرزا سعیدہ: (مرزا صاحب کی بیوی۔ صلح پسند عورت) ثریا: (سعیدہ کی لڑکی) ممتاز: (صُلح پسند عورت نمبر ۲) عائشہ: (صُلح پسند عورت نمبر ۳) منظر: فراخ اور کشادہ کمرہ معمولی فرنیچر سے آراستہ ہے۔ مگر اس آرائش میں حسن نظر نہیں آتا۔ چیزیں جابجا بکھری
کیا میں اندر آسکتا ہوں
افراد نعیم: (ایک آزاد خیال نوجوان) اور چند’’آنا منع ہے‘‘ کے بورڈ (بالکل آہستہ آہستہ وہ دُھن سازوں پر بجائی جائے جس میں�آگے چل کر اس ڈرامے کا ہیرو ایک غزل گائے) نعیم: (ایک لمبی سانس لے کر)۔۔۔۔۔۔کیسی پُر فضاجگہ ہے۔۔۔۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں
آؤ اخبار پڑھیں!
لاجونتی: (بڑ ے اشتیاق بھرے لہجے میں) آؤ اخبار پڑھیں! (کاغذ کی کھڑکھڑا ہٹ) کشور: (چونک کر)کیا کہا؟ لاجونتی: کہہ رہی ہوںآؤ اخبار پڑھیں! کشور: پڑھو‘ پڑھو‘ ضرور پڑھو۔۔۔ شکر ہے کہ تمہیں کچھ پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ لاجونتی: جی۔۔۔ گویا میں بالکل ان پڑھ
بابر کی موت
۔۔۔اسٹیج پر ہر روز ڈرامے کھیلے جاتے ہیں ، مگر ان میں سے کتنے معنی کے لحاظ سے مکمل ہوتے ہیں ۔۔۔ دراصل خامکاری اسٹیج کا قانون ہے۔اگر کسی ڈرامے کا پہلا ایکٹ شاندار ہے تو اس کے آخری ایکٹ پہلے ایکٹ کی جان کے قدموں میں دم توڑتے نظر آئیں گے۔ اگر کسی ڈرامے کا
کبوتری
(مرغ کی اذان۔۔۔۔۔۔پتھریلے زینوں پر قدموں کی آواز۔۔۔۔۔۔ پھر مرغ کی اذان۔۔۔۔۔۔قدموں کی آواز۔۔۔۔۔۔مندرکا گھنٹہ ایک بار بجتا ہے۔۔۔۔۔۔وقفہ۔۔۔۔۔۔دوسری بار بجتا ہے۔۔۔۔۔۔ وقفہ۔۔۔۔۔۔دو لڑکیوں کے گنگنانے کی آوازیں جیسے وہ زیر لب پوجا کررہی ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ گنگناہٹ
تین موٹی عورتیں
کردار تین موٹی عورتیں: ایک پتلی عورت (۱) مسز بلی موریا۔ (پیرن) (ا) شیریں (مسز فوجدار) (۲) مسز باٹلی والا (فرینی) (۲) شیریں کا باپ (۳) مسز چٹرجی (پدما) (۳) ایک نوکر (۴) ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔ پہلا منظر: (اسٹیج دو حصوں میں منقسم ہے یوں ایک بڑا اور ایک
آؤ خط سنو!
کشور: اپنی بیوی سے ‘ اشتیاق بھرے لہجے میں ) ادھر آؤ‘ خط سنو! لاجونتی: (دور سے) کیا کہا؟ کشور: میں کہتا ہوں ادھر آؤ خط سنو! لاجونتی: کوئی اور کام نہ کروں (غصے میں ‘ لو سناؤ کیا کہتے ہو؟ کشور: (گھبرا کر :۔۔۔۔۔۔میں کیا کہہ رہا تھا؟۔۔۔ہاں۔۔۔ دیکھو لا
انصاف
دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔ چوبدار: باادب: با ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو، شہنشاہِ عالم لنچ کے لیئے تشریف لارہے ہیں۔ شہنشاہِ عالم کے قدموں کی بھاری چاپ سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ تشریف
ماچس کی ڈبیا
دیدی (گہرا سانس لے کر) تواب مجھے اس کمرے میں رہنا ہو گا۔۔۔ کیا کہتے ہیں بمبئی کی زبان میں ایسے کمروں کو۔ پال: کھولی۔ دیدی: کتنا واہیات نام ہے۔۔۔ غربت کی توہین ایسے ہی بدنما ناموں سے تو ہوتی ہے۔۔۔کھولی۔۔۔ یعنی جس نے چاہا کھول لی۔۔۔ مجھے غریبی سے اتنی
غالب اور سرکاری ملازمت
حکیم محمود خان مرحوم کے دیوان خانے کے متصل یہ جو مسجد کے عقب میں ایک مکان ہے، مرزا غالب کا ہے۔ اسی کی نسبت آپ نے ایک دفعہ کہا تھا۔ مسجد کی زیر سایہ ایک گھر بنا لیا ہے یہ بندۂ کمینہ ہمسایۂ خُدا کا ہے آئیے! ہم یہاں آپ کو دیوان خانے میں لے چلیں۔ کوئی
مامتا کی چوری
افراد مسٹر بھاٹیہ۔۔۔ مسز بھاٹیہ۔۔۔ گوپال (گوپو)مسٹر اور مسز بھا ٹیہ کا کم سن لڑکا چپلا:گوپال کی اُستانی ڈاکٹر۔۔۔ (پانی میں ہاتھ دھونے کی آواز) ڈاکٹر: بچے کو زبردست انفکشن ہو گئی ہے اگر اس کی اچھی طرح تیمارداری اور خبر گیری نہ کی گئی تو مجھے اندیشہ
آؤ تا ش کھیلیں
لاجونتی: (اپنے پتی سے : اشتیاق بھرے لہجے میں آؤتاش کھیلیں۔ کشور: چونک کر کیا کہا؟ لاجونتی: کیا بہرے ہو گئے ہو؟۔۔۔ کل بھی پہربھر چلّاتی رہی اور تم نے خاک نہ سنا ۔۔۔ یہ سگرٹوں کی خشکی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔۔۔ کانوں میں بادام روغن کیوں نہیں ڈلواتے؟ کشور: نسخے
جرنلسٹ
(بہت سے لڑکے پہاڑے یاد کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ایک شور مچاہے۔۔۔۔۔۔ بیچ بیچ میں میز پر بید مارنے کی آواز بھی آتی ہے۔۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ یہ شور فیڈآوٹ ہو جائے۔) عبدالباری: ۔۔۔۔۔۔کیا واہیات پن ہے۔۔۔۔۔۔یہ سوائے۔ڈیوڑھے ڈھائے۔اونچے پونچے اور ڈھونچے کے پہاڑے کیا بکواس
نقش فریادی
افراد سہیل : (شاعر) نجمہ : (محبت زندہ عورت) اور تین چار محبت فروش عورتیں نوٹ: ذیل کا تمہیدیہ شاعرانہ انداز میں پڑھا جائے۔ اس کے عقب میں کوئی ایسا ساز بجتا رہے جو موزوں و مناسب ہو۔ تمہیدیہ: شاعر شعر لکھتے آئے ہیں اور لکھتے رہیں گے جذبات کے دھارے
چنگیز خان کی موت
آج سے سات سو سال پہلے کا ذکر ہے ایک شخص آندھی کی طرح اُٹھا اور قریب قریب ساری دنیا پر چھا گیا ۔اس شخص کا نام’’ چنگیز خان ‘‘تھا ۔جس کی دہشت ایک زمانہ تک لوگو ں کے دلو ں پر طاری رہی۔زندگی میں اس کو بہت سے خطاب ملے‘کسی نے اس کو ’’انسان کو ہلاک کرنے والا
انتظار
(گھڑی آٹھ بجاتی ہے) منتظر آدھا گھنٹہ........ صرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ........ یہ ٹن کی آخری آواز دیتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی۔اور ........ اور........ منتظر کا منطقی وجود........ اگر وہ نہ آئی ........ یعنی اگر........ منتظر: کیوں نہ آئے
تین انگلیاں
افراد باٹلی والا۔۔۔شوہر شیریں۔۔۔بیوی جگن ناتھ۔۔۔جوہری کرنل امر ناتھ۔۔۔مہمان پولیس انسپکٹر اور دو تین سپاہی ایکٹ پہلا پہلا منظر ایک پُر تکلّف طریقے پر سجا ہوا ڈرائنگ روم۔کھڑکیوں پر ریشمی پردے لٹک رہے ہیں۔قالین بچھا ہوا ہے جو کہ بہت دبیزہے۔ باٹلی
راسپوٹین کی موت
راسپوٹین دنیا کا سب سے بڑا گنہگار اور بدخصلت انسان جو روس میں پیدا ہوا، ولی یقین کیا جاتا تھا، مگر درحقیقت وہ ایک شیطان تھا جس کے ہاتھوں زارِ روس کی عظیم الشان سلطنت برباد ہوئی اس کی گناہوں بھری زندگی اس قدر حیرت خیز ہے کہ اس پر کسی خیالی افسانے کا گمان
کمرہ نمبر9
افراد شیریں : (ایک شوخ و شنگ لڑکی۔۔۔۔۔۔تیز گفتار) زمان : (بے پروا سا آدمی۔۔۔۔۔۔شیریں کا بھائی) فضلو : (گھر کا خادم) رانی : (بھنگن) ناصر : (شیریں کا ایک چاہنے والا) **** (دروازے پر ایک ہاتھ پڑنے کی آواز) زمان: دیکھو شیریں۔ دستک نہ دو۔۔۔۔۔۔ پڑھو
آؤ بحث کریں!
لاجونتی: (اشتیاق بھرے لہجے میں‘ اپنے پتی سے)آؤ بحث کریں۔ کشور: بحث کریں۔۔۔کس سے بحث کریں؟ لاجونتی: تم تو یوں بات کر رہے ہو گویا بحث کو جانتے ہی نہیں۔۔۔ساری عمر گزر گئی تمہاری بحث کرتے کرتے اور آج کتنے انجان بن رہے ہو۔ ننھے نادان روٹی کو ٹوٹی اور
نیلی رگیں
افراد سعید: (شاعر۔ آواز میں جذبات کا ہجوم۔خوش گفتار) کرشن: (سعید کا دوست) ثُریّا: ایک اجنبی عورت۔ متلون مزاج) سعید: (ذیل کے اشعار پڑھتا ہے) مرمریں پیکر یہ نیلم کے خطوط سرد ہے دنیائے خواب میرے برفانی تصوّر میں مگر بہہ رہا ہے نیلگوں سیماب سا جس
گاف گُم
حامد: (ٹائپ کرتے ہوئے) پا۔۔۔کس۔۔۔تان۔۔۔ میں۔۔۔تع۔۔۔لی۔۔۔می۔۔۔فلم۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔(کاٹ کر) فلمو۔۔۔ ں۔۔۔کی۔۔۔ اہمیت۔۔۔ پر۔۔۔ ابھی۔۔۔ تک۔۔۔غور۔۔۔ نہیں۔۔۔ کیا۔۔۔گیا۔۔۔ لیکن یہ گاف کدھر گیا۔۔۔۔۔۔ ارے سچ مچ یہ گاف کدھر ہے۔لاحول ولا ملتا ہی نہیں (سلیمان داخل
کٹاری
(پوری تفصیلات کے ساتھ فلمی کہانی) فلم کے عنوان ختم ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ آخری عنوان کے عقب میں’’بہارستان‘‘ کا ٹریڈ مارک ہے۔۔۔۔۔۔ ایک پھول اور دو کلیاں۔۔۔۔۔۔ ہم ڈزالو کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی سرکار کی حویلی سے ملحقہ باغ ٹریڈ مارک کا پھول اور کلیاں،
خود کشی
عورت: آج کل کے زمانے کی فیشن ایبل عورت چچا: پرانی وضع کے بزرگ ہیر: ہیررانجھا ڈرامہ کی ہیر۔ وہی لباس نوکرانی: جوان عورت خادماؤں کے لباس میں پردہ اُٹھتا ہے سٹیج پر بالکل اندھیرا چھایا ہے سامنے ایک عورت کرسی پر بیٹھی ہے بال کھلے ہیں صرف اس کے چہرے پر
ساڑھی
افراد کوی : (مالتی کا چاہنے والا) مالتی : (جوان لڑکی) مالتی کی ماں : سیٹھ : (مالتی کا دولت مند عاشق) کوی کا دوست: اور تین چار فالتو آدمی : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (مشین چلانے کی آواز۔۔۔۔۔۔کبھی ہولے ہولے کبھی تیز تیز) مالتی: (مشین چلاتی جاتی
تحفہ
افراد جگل : (آواز میں بے نیازی ہو) شیلا : (خوش آواز لڑکی) گنیش : تعلیم یافتہ بنیا۔ بولنے کا جچا تلا انداز ایک لڑکی : شیلا کی سہیلی دکاندار : (ان پڑھ بنیا۔ جھگڑالوقسم کا آدمی) رامو : (نوکر) کالج کا گھنٹہ بجتا ہے۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی کئی قدموں کی آواز شیلا: جگل۔۔۔۔۔۔جگل! جگل: او۔۔۔۔۔۔شیلا شیلا: میں
جیب کترا
افراد کانشی : جیب کترا بملا : اُستانی(جوان عورت) گردھاری : کانشی کا ساتھی پنڈت : کالا چور(بلیک میلر) تین چار فالتو آدمی **** ذیل کا مکالمہ شروع ہو تو اس کے عقب میں بازار کا صوتی منظر پیش کیا جائے۔ گاڑیوں۔ رکشاؤں۔ موٹروں اور راہ گزروں کا شور پیدا
قلو پطرہ کی موت
قلو پطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی۔اس کا حُسن کئی ا نقلابو ں ‘اور خونریزیو ں کا با عث ہوا۔۔۔ اس ساحرہ کے حُسن وعشق کے قصے جہا ں دریائے نیل کے ملاحوں کو ازبر یاد ہیں۔وہا ں تمام دنیا کو معلو م ہیں۔ قلو پطرہ مصر کے نا لائق بادشاہ بطلیموس اولیت کی بیٹی
آؤ کہانی لکھیں!
لا جونتی: اپنے پتی سے اشتیاق بھرے لہجے میں۔۔۔ آؤ کہانی لکھیں۔ کشور: (چونک کر)کہانی؟ لاجونتی: ہاں ہاں‘کہانی کشور: میں لکھنا نہیں جانتا‘کہو تو ایک سُنادوں۔ لاجونتی: سُناؤ۔ کشور: سُنو۔۔۔ایک تھی کہانی اُس کی بہن تھی نہانی‘اُس کا بھائی تھا بسولا۔اُس
چوڑیاں
افراد حامدکالج کا ایک جواں طالب علم ،طبیعت شاعرانہ سعیدحامد کا دوست ڈپٹی صاحب حامد کے والد ثُریّاحامد کی بہن حمیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں حامد کی ماں دکان دار۔حمیدہ کی ایک سہیلی۔تاروالا اور ایک ملازم۔ پہلا منظر کالج ہوسٹل کا ایک کمرہ۔۔۔ہر چیز قرینے سے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-