- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر63
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
صبا ممتاز بانو کے افسانے
بھوک
یہ رات کا پچھلا پہر تھا۔ کمرے میں سکوت طاری تھا لیکن کوئی تھا جو بول رہا تھا۔ ٹی وی تو بند تھا پھر وہ کون تھا۔؟ میں نے اردگرد دیکھا۔ وہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ میں نے اپنے بسترکی طرف دیکھا۔ وہ میرے ساتھ ہی لیٹا ہوا تھا۔ کمال ہے کہ وہ میرے اس قدر
آؤ پیار کریں
وہ چوہدری صاحب کی رہنمائی میں ایک کھلے بازار سے گزرنے کے بعد نسبتاً ایک تنگ گلی میں داخل ہو چکی تھی۔ یہ راستہ اس کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ اس کا اس راستے سے کئی بار گزرنا ہوتا تھا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس پلازے کے تہہ خانے میں پرانی کتابوں کا اتنا
چلتی پھرتی عورت
رنگو چاچا کا ہوٹل آیا تو راول کے پیٹ میں ناچتی بھوک نے سفر کرنے سے انکار کر دیا۔ راول نے ٹرک کو تھپکی دی اور نیچے اتر گیا۔ ’’جلدی آ چھوٹے۔۔۔! زور کی بھوک لگی ہے۔‘‘ راول نے ڈھابے پر اترتے ہی فوراً چھوٹے کو آواز دی۔ اس وقت راول کو بھوک بھی بہت
ملاقات
یہ ایک خنک رو دن تھا۔ فلک پر گھٹائیں مستیاں کررہی تھیں۔ کالی سرمئی بدلیاں مجھے وادی کشمیر کے حسین نظارے یاد دلارہی تھیں جنہیں میں نے اپنے دل کے آنگن میں چھپا رکھا تھا۔ جب دیکھنے کو من کرتا تو ایک جھانک سے جیسے سارا منظر میری نگاہوں کے سامنے کھڑا ہو
پنچھی
رات نے ہر چیز کو تاریکی کی چادر اوڑھا دی تھی۔ دھیمی دھیمی سی ہوا چل رہی تھی۔ پھولوں کی خوشبو مانو کو مدہوش کیے دے رہی تھی۔ پلکوں کو ہجر اب گوارا نہیں تھا۔ آنکھیں خود بخود بند ہوتی جا رہی تھیں۔ اس نے خود کو نیند کے سپرد کر دیا۔ شب کے راجا نے دن کے
جستجو
شب نے ستاروں کی شال اوڑھ لی تھی۔ مسافر کے اعصاب شل ہو چکے تھے اور وہ پوری طرح نڈھا ل ہو چکا تھا۔ تھکن اس کی ہمت کو پسپا کیے دے رہی تھی لیکن سفر اس کا مقدر بن چکا تھا۔ اس کا پہلا سفر اس کی زبان سے نکلنے والے پہلے لفظ ‘‘اللہ جی’‘ کے ساتھ ہی شروع ہو
مداوا
موسم کی چوتھی بارش تھی۔ گل شیر نے اپنے معصوم بچوں کے ڈرے ہوئے چہرے دیکھے۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے سب سوالی ہوں۔ ’’بابا یہ چھت ہم پر تو نہیں گر جائے گی۔’‘ یہ ایک ایسی ماں کے پیٹ سے افلاطونی دماغ لے کر نکلے تھے جسے ڈھنگ سے روٹی بھی میسر نہیں تھی۔ کبھی کبھی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-