- کتاب فہرست 187772
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1960
طب905 تحریکات295 ناول4597 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1446
- دوہا64
- رزمیہ111
- شرح195
- گیت83
- غزل1158
- ہائیکو12
- حمد45
- مزاحیہ36
- انتخاب1573
- کہہ مکرنی6
- کلیات686
- ماہیہ19
- مجموعہ5013
- مرثیہ379
- مثنوی827
- مسدس58
- نعت547
- نظم1239
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ187
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
صادقہ نواب سحر کے افسانے
ٹوٹی شاخ کا پتہ
کار تیزی سے بورگھاٹ کی پہاڑیوں سے گزرتی جا رہی تھی۔ رئیسہ کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہچکولے کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کسی اندرونی درد کا اظہار کر رہی تھیں۔ آگے ڈرائیور کی سیٹ پر شہزاد بیٹھا تھا۔ ’’شیزو!‘‘ اس نے بےاختیار آواز دی، ’’اور کتنا راستہ باقی
وہیل چیئر پر بیٹھا شخص
ایئر پورٹ کی شاندار اور مشہور ڈیوٹی فری دوکانوں میں نیلے یونیفارم میں کام کرنے والی لڑکیاں خریداری میں مسافروں کی مدد کر رہی تھیں۔ ٹرمینل ون کی انڈیگو اے ئر لائنس کا ابھی اعلان نہیں ہوا تھا۔ صائمہ دوکان سے باہر نکل کرذرا سستانے کو اور وقت گزانے کو قطار
شیشے کا دروازہ
’’اسٹیشن روڈ کی گلی میں ایک ورائٹی اسٹور میں ایک لڑکی کے لیے جاب ہے۔‘‘، میری سہیلی شبانہ نے مجھے بتایا،’’ وہاں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں۔‘‘ جا کر دیکھا۔ یہ ایک بیس فٹ چوڑی اور سترہ فٹ لمبی دوکان تھی۔ دائیں طرف دوکان کی مالکن کا انگریزی کے ’ایل‘ کی
بے نام سی خلش
’’ہیلو مس چودھری!‘‘ ممبئی جیسے اجنبی شہر میں ریلوے اسٹیشن پر ایک خوب رُو نوجوان کو اپنے کو وش کرتے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ بہت دیر سے وہ روبی کے انتظار میں پلیٹ فارم کی ایک خالی بینچ پر بیٹھ کر پریشان نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ ’’فرمائیے
اکنامکس
دو دنوں کے بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ تیسرے دن بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلا لیکن شام کے وقت اس کے جی میں جانے کیا سمائی کہ بازار سے مٹھائی خرید لی اور اپنے خیرخواہوں سے ملنے چلا گیا۔ دراصل عمارت کے اس منزلے پر شہلا کا گھر سب سے آخری تھا۔اختر ان کے
دیوار گیر پینٹنگ
صدف نے اپنی ماں کے گھر کے اس ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنا آشیانہ مستقل طور پر بنا رکھا تھا، وہ تھی اور اس کی تنہائی ، جس میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔ بس آوارہ سوچیں ہی چپکے سے چلی آتیں اور ہولے ہولے باتیں کرتی ہوئی اس کے دل و دماغ پر چھا جاتیں اور
ٹمٹماتے ہوئے دیے
یہ علاقہ شہر کی ہلچل سے کچھ دور واقع تھا۔ اس ڈیمڈ یونیورسِٹی میں کئی فیکلٹیز تھیں۔ کینٹین ایک طرف تھا، دوسری طرف ہاسٹل کی دو منزلہ عمارتیں۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔اسی کے بیچ کچی پگڈنڈیاں تھیں جو سبھی عمارتوں کو آپس میں جوڑتی تھیں۔ پگڈنڈیوں کی
پہاڑوں کے بادل
ڈاکٹر راحین اپنی ڈسپنسری کا پرانا اسٹاک دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ مہینوں بعد ایکسپائر ہونے والی دوائیاں نکال کر الگ کر رہی تھیں۔ ان کے ڈسپنسری کے اوقات صبح نو سے بارہ اور شام چھ سے آٹھ تھے۔ اس وقت دوپہر کے بارہ بجے تھے۔ شاید آج کا آخری مریض جا چکا تھایا
پیج ندی کا مچھیرا
دھوپ چڑھے پیج ندی کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دھوپ سے گہرائے گہرے سانولے رنگ کے مرد بارود کو آگ دکھا کر ندی میں پھینک رہے تھے۔ پھٹ پھٹ کی آوازیں آس پاس کے گاوؤں میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جمعرات کا دن تھا۔ مہادو آج ذرا دیر سے ندی پر پہنچا تھا۔ وہ
راکھ سے بنی انگلیاں
بنگلور سے ممبئی آنے کے بعد مجھے ذہنی سکون نہیں ملا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کسی اچھے علاقے میں اچھا کرایہ ادا کرکے رہنے کا اہل نہیں تھا۔ ممبئی میں مکان کا ملنا بھی کچھ آسان نہیں ہوتا۔ بہت کوششوں کے بعدجس بلڈنگ میں مجھے جگہ ملی
join rekhta family!
-
ادب اطفال1960
-