- کتاب فہرست 180666
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب775 تحریکات280 ناول4046 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1393
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل930
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1489
- کہہ مکرنی6
- کلیات637
- ماہیہ18
- مجموعہ4459
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1122
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
صادقہ نواب سحر کے افسانے
سہمے کیوں ہو انکش!
مسزپاٹل بہت پریشان تھیں۔ شرمندہ بھی تھیں۔ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا شریر بچہ شرارتوں میں اِس حد تک بڑھ جائے گا کہ انہیں پورے قصبہ میں شرمندہ ہونا پڑے گا۔ انکش نام کا انکش یعنی بندھن تھا مگر اس پر کوئی بندھن عائد نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک لمحہ خاموش
اکنامکس
دو دنوں کے بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ تیسرے دن بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلا لیکن شام کے وقت اس کے جی میں جانے کیا سمائی کہ بازار سے مٹھائی خرید لی اور اپنے خیرخواہوں سے ملنے چلا گیا۔ دراصل عمارت کے اس منزلے پر شہلا کا گھر سب سے آخری تھا۔اختر ان
وہیل چیئر پر بیٹھا شخص
ایئر پورٹ کی شاندار اور مشہور ڈیوٹی فری دوکانوں میں نیلے یونیفارم میں کام کرنے والی لڑکیاں خریداری میں مسافروں کی مدد کر رہی تھیں۔ ٹرمینل ون کی انڈیگو اے ئر لائنس کا ابھی اعلان نہیں ہوا تھا۔ صائمہ دوکان سے باہر نکل کرذرا سستانے کو اور وقت گزانے کو قطار
راکھ سے بنی انگلیاں
بنگلور سے ممبئی آنے کے بعد مجھے ذہنی سکون نہیں ملا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کسی اچھے علاقے میں اچھا کرایہ ادا کرکے رہنے کا اہل نہیں تھا۔ ممبئی میں مکان کا ملنا بھی کچھ آسان نہیں ہوتا۔ بہت کوششوں کے بعدجس بلڈنگ میں مجھے جگہ ملی
بے نام سی خلش
’’ہیلو مس چودھری!‘‘۔ ممبئی جیسے اجنبی شہر میں ریلوے اسٹیشن پر ایک خوب رُو نوجوان کو اپنے کو وش کرتے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ بہت دیر سے وہ روبی کے انتظار میں پلیٹ فارم کی ایک خالی بینچ پر بیٹھ کر پریشان نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ ’’فرمائیے
ٹوٹی شاخ کا پتہ
کار تیزی سے بورگھاٹ کی پہاڑیوں سے گزرتی جا رہی تھی۔ رئیسہ کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہچکولے کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کسی اندرونی درد کا اظہار کر رہی تھیں۔ آگے ڈرائیور کی سیٹ پر شہزاد بیٹھا تھا۔ ’’شیزو!‘‘ اس نے بےاختیار آواز دی، ’’اور کتنا راستہ باقی
ٹمٹماتے ہوئے دیے
یہ علاقہ شہر کی ہلچل سے کچھ دور واقع تھا۔ اس ڈیمڈ یونیورسِٹی میں کئی فیکلٹیز تھیں۔ کینٹین ایک طرف تھا، دوسری طرف ہاسٹل کی دو منزلہ عمارتیں۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔اسی کے بیچ کچی پگڈنڈیاں تھیں جو سبھی عمارتوں کو آپس میں جوڑتی تھیں۔ پگڈنڈیوں
شیشے کا دروازہ
’’اسٹیشن روڈ کی گلی میں ایک ورائٹی اسٹور میں ایک لڑکی کے لیے جاب ہے۔‘‘، میری سہیلی شبانہ نے مجھے بتایا،’’ وہاں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں۔‘‘ جا کر دیکھا۔ یہ ایک بیس فٹ چوڑی اور سترہ فٹ لمبی دوکان تھی۔ دائیں طرف دوکان کی مالکن کا انگریزی کے ’ایل‘ کی
دیوار گیر پینٹنگ
صدف نے اپنی ماں کے گھر کے اس ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنا آشیانہ مستقل طور پر بنا رکھا تھا، وہ تھی اور اس کی تنہائی ، جس میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔ بس آوارہ سوچیں ہی چپکے سے چلی آتیں اور ہولے ہولے باتیں کرتی ہوئی اس کے دل و دماغ پر چھا جاتیں
پیج ندی کا مچھیرا
دھوپ چڑھے پیج ندی کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دھوپ سے گہرائے گہرے سانولے رنگ کے مرد بارود کو آگ دکھا کر ندی میں پھینک رہے تھے۔ پھٹ پھٹ کی آوازیں آس پاس کے گاوؤں میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جمعرات کا دن تھا۔ مہادو آج ذرا دیر سے ندی پر پہنچا تھا۔ وہ
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-