- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
سعید نقوی کے افسانے
بجوکا
رابعہ بہت دل لگا کر تیار ہو رہی تھی۔ پچھلے سال میلے پر زمیندارنی نے اپنا ایک پرانا ریشمی جوڑا دیا تھا جو رابعہ نے بہت سنبھال کر صندوق میں رکھ دیا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ اس جوڑے کو صندوق سے باہر کی ہوا لگائی جائے۔ صبح بہت سویرے باپ کے اٹھنے سے پہلے
ذوق اسیری
جب پہلی بار اس پر میری نظر پڑی تو وہ صوفے پر بیٹھا بہت تحمل سے کسی کی بات سن رہا تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ وہ متوجہ تو ہے لیکن سن نہیں رہا۔ یقیناً آپ کو کبھی نہ کبھی اس بات کا تجربہ ضرور ہوا ہوگا۔ وہ کچھ ایسا ترچھا بیٹھا تھا کہ اس کی شکل بھی پوری
وقت کی بساط
‘‘چال چلئے بھگوان داس جی، کس سوچ میں پڑ گئے آپ‘‘؟ ‘‘ہاں میاں آپ کہہ سکتے ہیں یہ بات، داؤں جو چل گیا ہے۔ ذرا بھاری پڑ گیا ہے اس دفعہ آپ کا ہاتھ۔ گھوڑا بچاتا ہوں تو رخ جاتا ہے اور دونوں بچا لوں تو چند چالوں کے بعد مات کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں آپ ہی بتائیں
بے دخلی
کسی آواز سے میری آنکھ کھلی تو میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا، وہ باہر برآمدے میں کھڑا تھا۔ یقیناً میری آنکھ اس کی موجودگی سے ہی کھلی تھی۔ پہلے تو میں اسے پہچان نہیں سکا۔ آنکھ کھلتے ہی ہر چیز ایک سی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ذہن کے کسی گوشے میں شناسائی کے خلئے
گرمی بازار
معزز ناظرین، میں گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک کا نمائندہ لی من آپ سے مخاطب ہوں۔ گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک اس عظیم مقابلے کا آنکھوں دیکھا حال آپ تک پہنچائےگا۔ ہم گاہے بگاہے مقابلے کی تاریخ، دونوں کھلاڑیوں کی تیاری اور کھیل کے ماہرین کا تبصرہ آپ تک پہنچاتے رہیں گے۔
ذاتی بات
وقت کی زبان رفتہ رفتہ ایسے چاٹ رہی ہے کہ نہ ہمیں احساس زیاں ہے اور نہ اس کے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے۔ اگر امریکہ میں مقیم دیسی مردوں کی اوسط عمر پچھتر فرض کی جائے تو اس اعتبار سے عمرِ عزیز کی تیسری اور آخری تہائی شروع ہو چکی ہے۔ اس تہائی میں ایسے فضول سوالات
دھوپ کی تپش
آج بھی وہ اپنے مقر رہ وقت پر ہی آئے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچپن سے ہی میں نے سیکھ لیا تھا کہ وہ جس وقت کا وعدہ کرتے ہیں اسی وقت پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی آمد کی امید رکھنا عبث ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھی ایک خوشگوار حیرانگی کے لئے بغیر
دام آگہی
تیزی سے پیچھے کی سمت بھاگتے درختوں کا درمیانی فاصلہ بڑھنے لگا، ٹرین کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے اب تھمنے کو تھی۔ پہیوں کی پٹری پر گرفت مضبوط ہو گئی اور ایک سیٹی کے ساتھ ٹرین رک گئی۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا مگر صبح کے دھندلکے میں اسٹیشن کا نام صاف
ترک رسوم
دیہی امریکہ میں وہ سب سہولتیں موجود ہیں جنہیں ہم صرف شہروں کا حق سمجھتے ہیں۔ صاف پانی، بجلی، پکی سڑک، اسکول، کالج سینیما، پارک اور معالجے کی سہولیات، سب کچھ ہی ہوتا ہے۔ بس نہیں ہوتا تو آدمیوں کا وہ جنگل جو بڑے شہروں کا خاصہ ہے۔ یہ دیہات اور قصبے یا تو
جنگل کا قانون
‘‘پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں۔۔۔ پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں’’ اسی گنگناہٹ میں مگن وہ جنگل کے اندر دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ کانٹوں سے دامن بچاتی، ادھر ہریالی پہ منہ مارا۔۔۔ ادھر پھولوں پہ چکھ ماری۔ جوانی کا عالم ایسا ہی اندھا ہوتا ہے۔ آج صبح
سخت جانی ہائے تنہائی
‘‘ہائے میری ٹانگ‘‘ احمد کی سسکی میں درد کی شدت نمایاں تھی۔ ارے کوئی ہے جو میری مدد کرے۔ احمد کا بدن کمر سے نیچے بالکل مفلوج ہو چکا تھا۔ کاش درد کا احساس بھی مفلوج ہو جائے، مٹ جائے۔ درد رہے یا نہ رہے بس محسوس نہ ہو۔ اس درد سے چھٹکارا پانے کے لئے اس
پرایا جرم
میں کمرے میں داخل ہوا تو گفتگو ایک لمحے کے لئے رک گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمیشہ یہی ہوتا آیا تھا۔ جہاں میں کسی کمرے، برآمدے، صحن میں داخل ہوا ایک لمحے کے لئے گویا وقت رک جاتا تھا۔ پھر ایک لحظہ ٹھٹک کر جیسے دوبارہ چل پڑتا۔ یہ لحظہ اتنا مختصر بھی ہو
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-