بناوٹ ہو تو ایسی ہو کہ جس سے سادگی ٹپکے
زیادہ ہو تو اصلی حسن چھپ جاتا ہے زیور سے
صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ 3 جنوری 1862 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے- صفی کی ابتدائی تعلیم 5 برس کی عمر میں بسم اللہ سے ہوئی۔ ابتدا میں فارسی اور عربی درسیات مولوی احمد علی اور چچا سید حسین سے جو ایک نامور حکیم تھے، حاصل کیں۔ کاکوری کے مولوی شمس الدین سے بھی استفادہ کیا۔
فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی پڑھنے کا شوق ہوا۔ کیننگ کالیجیٹ لکھنؤ سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1879 میں لال اسکول اور پھر کیننگ کالج کی برانچ میں انگریزی پڑھانے پر مامور ہوئے، پھر 1871 میں اترپردیش گورنمنٹ کے محکمہ دیوانی میں سرشتہ دار کے عہدہ پر ملازم ہوئے اور اس سلسلے میں رائے بریلی، سلطانپور اور پرتاپ گڑھ وغیرہ میں قیام کرنا پڑا مگر ملازمت کا زیادہ تر حصہ لکھنؤ میں ہی گزرا اور یہیں سے 1917 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ سرکاری ملازمت سے سبکدو ش ہونے کے بعد عرصے تک آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ مئی 1940 میں سو روپے ماہوار کا وظیفہ نواب رامپور نے مقرر کیا جو تاعمر جاری رہا۔
صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا اور پھر دھیرے دھیرے اس فن میں اتنی ترقی کی کہ تمام اصناف سخن پر قدرت حاصل کر لی۔ صفی کی شاعری 1877 سے 1950 تک آٹھ دور سے گزری اور انھوں نے 1877 سے لے کر اپنی آخری عمر تک لکھنؤ کی بزم ادب کو اپنے فن اور وجود سے رونق بخشی۔ صفی نے لکھنو کے عام شعری مزاج سے الگ ہٹ کر شاعری کی ، ان کا یہی انفراد ان کی شناخت بنا ۔ مولانا حسرت موہانی انہیں ’ مصلح طرز لکھنؤ ‘ کہا کرتے تھے۔
صفی نے غزل کی عام روایت سے ہٹ کر نظم کی صنف میں خاص دلچسپی لی ۔ انہوں نے سلسلہ وار قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی ، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاس ہیں ۔ اس کے علاوہ قصیدہ ، رباعی اور مثنوی جیسی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ۔ صفی کی نظمیں اور غزلیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر لکھنو کی خاص روایتی طرز کو بدلنے کی طرف مائل تھے ۔25 جون 1950 کو ان کی وفات ہوئی اور ان کے حسد خاکی کو غفراں مآب کے امام باڑے کے قریب راجہ نواب علی کے مقبرے کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا۔