- کتاب فہرست 185903
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1973
طرز زندگی22 طب917 تحریکات298 ناول4753 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1460
- دوہا48
- رزمیہ108
- شرح199
- گیت60
- غزل1182
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1596
- کہہ مکرنی6
- کلیات691
- ماہیہ19
- مجموعہ5042
- مرثیہ384
- مثنوی836
- مسدس58
- نعت559
- نظم1245
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی18
- قطعہ63
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
شاہین کاظمی کے افسانے
پانچواں موسم
بچپن کی ملائمت اور نرمی چہرے پر اگنے والے روئیں نے کم کر دی تھی۔ اس کی جگہ ایک عجیب سی جاذبیت نے لے لی تھی گو میاں جی اسے منع کیا تھا کہ ابھی استرا نہ مارے لیکن اسے چہرے پر اگا ہوا بےترتیب جھاڑ جھنکار اچھا نہیں لگتا تھا اپنے ایک دوست کی مدد سے اس روئیں
برف کی عورت
’’انھیں لگتا ہے ان کے بودے جواز سے ظلم ،ظلم نہیں رہےگا؟‘‘ میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھاگونگے بہرے درو دیوار کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔۔۔ میں نے اپنے کانپتے وجود کو سنبھال کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن چکراکر گر گئی۔ پچھلے دو دن میں اس اندھیرے
میاں جی
بچپن کی ملائمت اور نرمی چہرے پر اگنے والے روئیں نے کم کر دی تھی۔ اس کی جگہ ایک عجیب سی جاذبیت نے لے لی تھی گو میاں جی اسے منع کیا تھا کہ ابھی استرا نہ مارے لیکن اسے چہرے پر اگا ہوا بےترتیب جھاڑ جھنکار اچھا نہیں لگتا تھا اپنے ایک دوست کی مدد سے اس روئیں
قیدی
رات گھاتک ہے اندھیری اور ویران راہوں پر چلتے راہرو اس کے تیروں سے نہیں بچ سکتے لیکن نہیں۔۔۔ سوال اندھیری اور ویران راہوں کا نہیں اِس کے انتخاب کا ہے اب اسے نصیب کہا جائے یا کچھ اور لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے طلسماتی تیر ہر ایک کو کھوج نکالتے ہیں وہ اپنے
ایک بوسے کا گناہ
گھنے پیڑوں کے کھردرے بدن چھیل کر بہتی ہوا پتوں کی سسکاریاں سن کر لمحہ بھر کو ٹھٹکتی غضب ناک ہوتی اور پھر سے اپنی نادیدہ انگلیوں سے پیڑو ں کی بدن نوچنے لگتی۔ بادلوں سے اترتی دھند منظر نگلنے لگی تھی۔ ’’سنومیرا جی چاہا دھند کے حلق میں ہاتھ ڈال سارے منظر
خواب گر کی موت
گھڑی کی سوئی پھر بارہ پر آ چکی تھی، ایک اور دائرہ مکمل ہوا۔ ’’یہ دائرے مکمل ہوتے بھی نامکمل کیوں ہوتے ہیں؟‘’ ایک عجیب سا سوال ذہن میں کلبلایا۔ ’’کہیں کوئی لکیر ادھوری رہ جاتی ہے، کچھ نہ کچھ ہمیشہ ان کہا رہ جاتا ہے’’ ’’لیکن نہیں۔۔۔ آج سب
تریاق
پربتوں سے رات اتری تو راستوں پر اندھیرا بچھنے لگا خنکی بڑھ رہی تھی وہ قدرے پریشان ہو گیا۔ ’’شاید میں راستہ بھول گیا ہوں، ورنہ ابھی تک تو مجھے وہاں پہنچ جانا چاہئے تھا’’ اس نے بیلوں کو ہشکارا لیکن دن بھر کے ناہموار راستے نے انھیں بھی تھکا دیا تھا، ہشکارنے
رشتہ
اس قبر جیسی تنگ و تاریک سی جگہ سے جیسے کسی نے اسے اچانک باہر لا پٹخا، عجیب دل دہلا دینے والی آواز تھی جیسے صور اسرافیل پھونکا جا رہا ہو اس کا پورا بدن تشنج کا شکار تھا تیز کٹار کی طرح سینے میں ابھرتی ڈوبتی سانسیں، لگتا تھا جیسے گلے میں کوئی چیز اٹکی
برزخ
اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جیسے پورا وجود اشکوں میں ڈھل گیا۔ وہ جانتی تھی مرادوں کے چاند گہنانے لگیں تو اندھیرے روح میں بس جاتے ہیں پھیلے ہوئے ہاتھوں پر تواتر سے آنسو گر رہے تھے۔ وہ ارد گرد سے بے نیاز پتھرائی زبان اور خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپتا
join rekhta family!
-
ادب اطفال1973
-