- کتاب فہرست 184865
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1921
طب878 تحریکات290 ناول4311 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1097
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1540
- کہہ مکرنی6
- کلیات672
- ماہیہ19
- مجموعہ4837
- مرثیہ374
- مثنوی815
- مسدس57
- نعت535
- نظم1198
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
شہناز پروین کے افسانے
ہم دونوں تنہا
میں جہاں بھی جاتی یا کوئی ملنے والا آتا ہمیشہ اسی بات پر آکر تان ٹوٹتی،’’ اتنے بڑے گھر میں تم دونوں تنہا رہتے ہو؟‘‘میں بار بار وضاحت کرتی، ’’اس گھر میں جب ہم دونوں ہیں تو تنہا کیسے ہوئے؟ رہا تنہائی کا سوال تو بعض اوقات انسان مجمعے میں بھی تنہا رہ
روشنی چاہیے، زندگی کے لیے
وہ خواب تھا یا گمان تھا یا دونوں کے درمیان کوئی ساعت مگر اندھیرا تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا، خاص کر اس مقام پر جہاں روشنی کی ننھی سی کرن پھوٹنے کا ذرا سا بھی گمان ہوتا اندھیرا وہاں سب سے پہلے پہنچتا اور امید کی کرن کو نکل کر پھیلنے سے پہلے نگل لیتا،
چپ کہانی
بعض ساعتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں، پل بھر میں بےجان چیزوں کو جاندار اور جاندار کو بےجان بنادیتی ہیں۔ دین محمد میرے پاس سے گیا تھا تو کیسا زندہ آدمی تھا اور واپس آیا تو زندہ لاش بن چکا تھا۔ ساتھ کام کرنے والے دونوں لڑکے اس کے پاس افسردہ بیٹھے تھے۔ دین
ایلس ونڈرلینڈ میں
ہسپتال آنا جانا میرا معمول بن گیا تھا، میں ہر روز اپنی بیٹی عینی کی واپسی سے پہلے استقبالیہ کے سامنے انتظار گاہ میں اس کی راہ دیکھتی رہتی، اس روز ایک بہت خوب صورت کم عمر سی لڑکی میرے قریب آکر بیٹھ گئی۔ اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اس نے بڑی دل آویز مسکراہٹ
کھلا پنجرہ
بہت دنوں کے بعد ذرا فرصت ملی تو خیال آیا بکھری ہوئی یادوں کوسمیٹ کر ایک البم کی صورت دے ڈالوں۔ بےشمار تصویریں تھیں جو الگ الگ لفافوں میں ڈال رکھی تھیں، ہر تصویر کے ساتھ یاد کا ایک لمحہ بندھا تھا، گھنٹوں گزر گئے۔ تصویروں سے کردار نکل کر سامنے آتے، کبھی
جستجو کیا ہے۔۔۔
وہ مجھ سے اکثر ایک عجیب سا سوال کر بیٹھتیں۔’’تم دونوں ایک ہی کمرے میں ایک ہی بستر پر سوتے ہو نا؟‘‘ ان کے بار بار کے اس بھونڈے سوال سے میں گھبرا جاتی، مجھے کبھی غصہ اور خوف آتا اور کبھی وسوسہ اور گھبراہٹ، لیکن ان کے لہجے میں اتنی اپنائیت ہوتی کہ شدید
اپنا اپنا قفس
’’ماہی، ما ہرہ، اے ماہرہ‘‘ ایک آ واز ہے جو میرے حافظے میں یوں رچ بس گئی ہے کہ میں چاہنے کے باو جود اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی۔ ابا میاں کا سارا مرکز و محور میں ہی تھی، کبھی کبھی دل چاہتا سنی ان سنی کر دوں اور کہہ دوں: ’’بابا خدا کے لیے آپ کی اور بھی
خوشبو کی تلاش میں
وہ چپکے چپکے سب سے نظریں بچا کر ادھر ادھر دیکھتی تھی مبادا کوئی اسے دیکھ نہ لے،خاموشی سے کبھی رات کے اندھیروں میں کبھی دن کے اجالوں میں زمین کھود کر مٹی کریدتی اور اسے سونگھتی، کبھی آنکھوں کے دیے جل اٹھتے کبھی ان میں مایوسی کا درد لہریں لیتا، کبھی نا
پسپائی
ایک عرصے کے بعددل میں پھر ایک ہوک سی اٹھی اور وطن کی مٹی کی خوشبو نے سارے وجود کو لپیٹ میں لے لیا۔ ’’اتنے دنوں کے بعد جاکر کیا کروگی؟ اب تو وہاں کوئی بھی نہیں ہے تمھارا۔‘‘ میری دوستوں نے کہا تو میں رو پڑی۔ ’’سب کچھ تو ہے میرا وہاں، میرا شہر، اسکول،
صحرا گزیدہ
لمحوں کو اپنی گرفت میں لے کر ناقابلِ فراموش بنادینا اُس کامحبوب مشغلہ تھا۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کون سی تصویریں مرکزِ نگاہ بن جاتی ہیں۔ فطرت کے دلفریب مناظر، ہرے بھرے کھیت، خوش رنگ پھول، آزاد پرندوں اور ہنستے کھیلتے تندرست بچوں کی تصویروں کے خریدار
کمبخت ظالم عورت
آج برسوں بعد ایک ٹیلیفون کال نے مجھے پھر بےقرار کر دیا تھا، صبح ہی صبح میرے چھوٹے بیٹے نے فون اٹھایا اور بےاختیار مجھ سے لپٹ کر رونے لگا، ’’امی بھیا بہت رو رہا تھا، ابو اچانک فوت ہو گئے۔۔۔‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ
join rekhta family!
-
ادب اطفال1921
-