شمشاد لکھنوی کا نام محمد عبد الاحد تھا۔ 1850ء کے پاس پیدا ہوئے۔ آسی غازی پوری سے انہیں فن شاعری میں تلمذ حاصل تھا۔ وہ اپنے استاد آسی غازی پوری کے بارے میں فرماتے ہیں۔ سمجھے نہ کوئی کلام تو کیا غم ہے اشعار پر ان کے اور ہی عالم ہے شاگرد نہ تھا میں جب بھی تھا میرا قول آسی کا مثل شاعروں میں بہت کم ہے شمشاد لکھنوی بحیثیت عالم دین لکھنؤ اور غازی پور میں ممتاز تھے۔ صاحب دیوان شاعر تھے۔ ان کا کلام نہایت پختہ اور شگفتہ ہے۔ مدرسۂ چشمۂ رحمت غازی پور میں مدت دراز تک صدر مدرس رہے اور پھر 1917ء کے آس پاس وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔ ان کےتلامذہ میں عظیم آباد کے نامور عالم دین ظہیر احسن شوق نیموی کا نام بھی ملتا ہے، حضرت شاہ اکبر داناپوری کے خاص احباب میں شامل تھے۔ ان کے دیوان جذبات اکبر میں شمشاد کا قطع تاریخ بھی چھپا ہے۔۔