شارق جمال روایتی اور کلاسیکل اسکول کے ترتیب یافتہ تھے۔ وہ سیماب اسکول کے نمائندہ شاعر طرفہ قریشی کے شاگر رشید جانشین تھے۔ لیکن انہوں نے شاعری کے قواعد و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمیشہ نئی فکر اور نئے طرز کواپنایا۔
بقول پروفیسر نادم بلخی:۔ ’’ان کے یہاں اگر ایک طرف کہنہ مشقی اورکلاسیکیت ہے تو دوسری طرف دل موہ لینے والی جدیدیت‘‘
شارق جمال نے 1965ء سےباقاعدہ جدید طرز فکر اپنایا۔ انہیں علم عروس پر دسترس حاصل تھی۔ اس موضوع پر ان کی دو کتابیں ’’تفہیم العروض‘‘ اور ’’عروض میں نئے اوزان کا وجود‘‘ کو علمی وادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ علاوہ ازیں ان کے دو شعری مجموعے ’’عکس برعکس‘‘ 1986ء میں اور ’’نقش برنقش‘‘ 1988ء میں شائع ہوچکے ہیں۔
شارق جمال کے کلام میں جدید استعارے اورنئی تراکیب نئے مفہوم پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے شاعری کی ہر صنف پر طبع آزمائی کی لیکن غزل ان کی پسندیدہ صنف رہی۔ علاوہ ازیں انہوں نے جاپانی صنف سخن ’’ہائیکو‘‘ میں خوب تجربے کیے جسے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔