رات تھی جب تمہارا شہر آیا
پھر بھی کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی
شارق کیفی (سید شارق حسین)ایک جون 1961 کو بریلی، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ وہیں سے بی۔ ایس۔ سی۔ اور ایم۔ اے۔ (اردو) کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد کیفی وجدانی (سید رفاقت حسین) معروف شاعر تھے، یوں شاعری انہیں وراثت میں ملی۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ "عام سا ردعمل" 1989 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 2008 میں غزل کا دوسرا مجموعہ "یہاں تک روشنی آتی کہاں تھی" اور 2010 میں نظموں کا مجموعہ "اپنے تماشے کا ٹکٹ" منظر عام پر آیا۔ ان دنوں شارق کیفی بریلی میں مقیم ہیں۔
شارق کیفی کی غزل اور نظم، دونوں کو روٹین شاعری سے کوئی علاقہ نہیں۔ان کالہجہ، ان کی فکر، ان کا بیانیہ، ان کی تکنیک یہ تمام باتیں ان کے ہر معاصر شاعر سے الگ ہیں۔ان کی نظم کا کمال یہ ہے کہ وہ مختصر پیرائے میں سماج کو دیکھتے وقت اپنی چوتھی آنکھ کا استعمال کرتی ہے۔اب اس چوتھی آنکھ کی تفصیل جاننی ہو تو ان کا کلام پڑھیے۔اس پر غور کیجیے۔
شارق کیفی کی شاعری آج کی شاعری ہے۔ سستی آرائش سے پاک ستھری شاعری۔ بظاہر بے تکلّف، سادہ و شفاف لیکن گہری معنویت کی حامل۔ انسانی رشتوں سے راست معاملہ کرتی ہوئی۔ رشتوں کے احترام، رشتوں کے تصنع اور رشتوں کے بکھراؤ جیسے موضوعات کو چھوتی، سہلاتی اور تھپکتی ہوئی۔ عشق، دوستی، بے وفائی، عداوت، انکار، اعتراف جیسے ہر سماجی رویّے پر کاری ضرب لگاتی ہوئی، ایسی مہارت سے کہ مضروب نشان ڈھونڈتا رہ جائے۔