- کتاب فہرست 180875
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4464
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1124
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
شوکت سبزواری کا تعارف
شوکت سبزواری کا اصل نام شوکت علی ہے۔ ان کے والد سید اسدعلی تھے۔ جن سے آٹھ اولادیں تھیں۔ شوکت سبزواری سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے اسلاف مغلیہ دور میں مشہد سے ہندوستان آئے اور ضلع بلندشہر کے ایک مقام مرزا پورمیں بس گئے۔ شوکت کی ولادت بقول مالک رام 1905ء یا 1906ء میں ہوئی۔
شوکت علی کی تعلیم ابتدا میں ڈھنگ سے نہ ہوسکی۔ جب وہ صرف آٹھ برس کے تھے تو ان کے بڑے بھائی کی وفات ہوگئی جن کی نظرکرم ان پر رہا کرتی تھی۔ اب اس عمر میں وہ قرآن مجید پڑھنے کی طرف مائل ہوئے اور اردو پڑھنے کی طرف بھی رغبت بڑھی۔ وہ ابتدا میں چاہتے تھے کہ کوئی انہیں قرآن مجید پڑھا دیتا اور اردو سکھا دیتا۔ انہوں نے ایک استانی سے پڑھنے کا سلسلہ قائم کیا۔ اس طرح قرأت قرآن ختم ہوئی اور اردو میں بھی کچھ صلاحیت پیدا ہوئی۔ ایک مسجد کے مولوی صاحب نے ان کے والد صاحب کی درخواست پر انہیں مدرسہ امدادالعلوم، میرٹھ بھیج دیا۔ وہاں کئی محترم استاد تھے جن سے شوکت نے بھر پور استفادہ کیا۔ مولانا اخترشاہ نے ان کی فارسی اور عربی کے ذوق کو صیقل کیا۔ اس طرح 1924ء میں مولوی فاضل اور 1927ء میں منشی فاضل ہوگئے۔ پھر انگریزی کی طرف مائل ہوئے۔ حالانکہ ان کے والد انگریزی تعلیم کے خلاف تھے۔ لیکن 1926ء میں دسویں درجے کی سند انگریزی کے ساتھ حاصل کر لی۔ انہوں نے پرائیوٹ طور پر انٹر سے ایم اے تک کے امتحانات پاس کئے۔ ایم اے میں ان کا مضمون فارسی تھا۔ پھر کلکتہ یونیورسٹی سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔ قانون کی بھی سند لی۔ اس کے بعد ایم اے (اردو) سال اوّل آگرہ یونیورسٹی سے امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ پہلے وہ اسلامیہ انٹرکالج بریلی کے شعبہ فارسی میں ملازم ہوئے تبھی ایم اے اردو کا دوسرا سال بھی مقرر ہوا۔ امتحان دیا اور سند حاصل کی۔ انٹرکالج کے بعد وہ میرٹھ کالج کے شعبہ فارسی میں آگئے۔
ان کا ابتدائی مضمون ’’فلسفہ کلام غالب‘‘ ہے جو 1946ء میں شائع ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد عندلیب شادانی کی ایما پر وہ ڈھاکہ چلے گئے اور وہاں کی یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ یہیں سے انہوں نے اردو لسانیات کی بھی ڈگری لی۔ مالک رام لکھتے ہیں کہ:۔
’’1952ء میں اردو لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ جس کی تیاری وہ قیام میرٹھ کے زمانے سے کر رہے تھے۔ لسانیات کی طرف ان کا میلان بھی ایک حسن اتفاق کا کرشمہ تھا۔‘‘
شوکت سبزواری پہلے پہل افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ پھر وہ ’’نگار‘‘ اور’’معارف‘‘ میں لکھنے لگے۔ لیکن اب تک ان کی کتاب ’’فلسفہ کلام غالب‘‘ شائع نہیں ہوئی تھی۔ 1946ء میں ان کی اشاعت کے بعد ان کی شہرت میں چار چاند لگنے شروع ہوگئے اور لسانیات سے ان کی وابستگی، شغف اور ژرف بینی کا اظہار اس وقت ہوا جب ’’اردو زبان کا ارتقا‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب 1956ء میں ڈھاکہ سے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ یوں تو یہ ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے لیکن اس میں جس طرح لسانیاتی مباحث سامنے آئے ہیں وہ بیحد اہم ہیں۔ پھر ان کی لسانیات سے متعلق کتابیں ’’داستان زبان اردو‘‘، ’’لسانی مسائل‘‘، ’اردو لسانیات‘‘ وغیرہ شائع ہوتی رہیں۔ جن کی بنا پر انہیں ماہر لسانیات سمجھا جانے لگا۔ اردو لسانیات پر انہیں ’’داؤدادبی انعام‘‘ بھی حاصل ہوا۔ انہوں نے ’’غالب: فکروفن‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جو ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ مختلف مضامین ’’معیارادب‘‘ اور ’’نئی پرانی قدروں‘‘ میں شاید جمع ہیں۔ شوکت سبزواری کے ایسے مضامین پر نظر نہ بھی ہو تو ان کی لسانیات کی کتابوں کا جو وقار ہے وہ ہمیشہ محسوس کیا جاتا رہا ہے اور ان سے کئی نئے مباحث سامنے آئے ہیں۔
شوکت سبزواری کا انتقال 19؍مارچ1973ء میں کراچی میں ہوا۔ تدفین قبرستان الطاف نگر میں ہوئی۔موضوعات
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-