Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Siddiq Alam's Photo'

صدیق عالم

1952 | کولکاتا, انڈیا

جدید اردو افسانہ نگاروں میں ممتاز۔ بے پناہ تخلیقی وفور اور گہرے وجودی تجربے کی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور۔

جدید اردو افسانہ نگاروں میں ممتاز۔ بے پناہ تخلیقی وفور اور گہرے وجودی تجربے کی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور۔

صدیق عالم کے افسانے

119
Favorite

باعتبار

رود خنزیر

یہ انسانی تاریخ کے لا متناہی ہجرت کی کہانی ہے۔ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی اپنے عروج پر تھی۔ پاکستان بس ٹوٹنے ہی والا تھا۔ اس کا باپ بندرگاہ میں اپنے سامان کے ساتھ جہاز کے عرشے پرکھڑا تھا۔ اس وقت اسے اور اس کی ماں کو پتہ نہ تھا کہ وہ آخری بار اسے دیکھ رہے تھے، کہ یہ شخص انھیں فریب دے کر وہاں سے بھاگ رہا ہے۔ بہت بعد میں، تقریباً نو برس بعد، بسترِ مرگ پر ماں نے اسے بتایا کہ وہ جس نے جہاز پر قدم رکھنے سے پہلے یقین دلایا تھا کہ کراچی پہنچ کر وہ جلد انھیں بلا لیں گے لیکن اس نے کبھی لوٹ کر ماں بیٹے کی خبر نہیں لی۔ وہ سات برس کا تھا جب ایک دن اس کی ماں اسے لے کر پھر سے ہندوستان واپس لوٹ آئی۔ پھر ایک دن ماں کی موت سے اسے کوئی حیرانی نہیں ہوئی جیسے ساری زندگی وہ اس موت کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اپنی زندگی جیتے ہوئے چلتے چلتے شہر سے دور ایک ایسے دریا کے کنارے پہنچ جاتا ہے جس میں سور کے مردے بڑی تعداد میں پانی کے ساتھ بہتے جا رہے تھے ۔ اس دریا کو دیکھ کر اسے حیرت ہوتی ہے کہ گرچہ اس نے دو بار اپنا ملک بدلا تھا، مگر وہ تو ساری زندگی اسی رودِ خنزیر کے کنارے چلتا رہا تھا۔

خدا کا بھیجا ہوا پرندا

یہ حقائق اور خیالی تصورات پر مبنی بنی نوع انسان کی اصل دنیا سے متعارف کراتی کہانی ہے۔ انگریز ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی مشرقی پاکستان کا رخ کر چکی تھی۔ بستی میں چند ہی مسلمان رہ گئے تھے جو اب تک راوی کے دادا کی دو منزلہ عمارت سے آس لگائے بیٹھے تھے اور جب بھی شہر میں فساد کا بازار گرم ہوتا پناہ لینے کے لئے آ جاتے۔ اس کے دادا کو اس بات کا دکھ تھا کہ آئے دن انھیں پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام کا سامنا کرنے کے لئے تھانہ جانا پڑتا۔ پھر ایک دن فسادیوں نے انھیں اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر مار ڈالا۔ اس کے دادا کے گھر میں کئی کرایہ دار رہتے تھے جن میں ایک کرایہ دار بدھ رام تھا جو دادا کے ساتھ لمبے عرصے تک ریلوے میں نوکری کر چکا تھا۔ اس کی ساری زندگی کا اثاثہ ایک ٹرنک کے اندر بند تھا جس پر بیٹھے بیٹھے وہ کھڑکی سے باہر آسمان پر نظریں ٹکائے رہنے کا عادی تھا۔ ان ہی تنہائی کے دنوں میں ایک دن اس نے ایک طوطے کی کہانی سنائی جس کے جسم پر اللہ کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ طوطا ایک ادھیڑ عمر کی عورت اس کے پاس بیچنے آئی تھی، جسے دیکھتے ہی بدھ رام نے محسوس کیا کہ اب یہاں برا وقت آنے والا ہے۔

اچھا خاصا چیروا

یہ ایک فنتاسی ہے۔ جاڑے کی ایک صبح ایک قبائلی اپنے سور کے ساتھ پہاڑ سے اُتر کر اسے بیچنے کے لئے قصبہ کی طرف جارہا تھا ۔ حالانکہ یہ اتنا آسان کام نہ تھا۔ اس قصبہ میں دوسرے چوپایوں کی طرح سوروں کا کوئی ہفتہ وار ہاٹ نہیں لگتا تھا اور سور کو کسی چوراہے پر کھڑے ہوکر بیچنے کے لئے آواز لگانا کچھ عجیب سا عمل تھا۔ وہ مایوس ہو کر واپس آ رہا تھا کہ پہاڑی ڈھلان پر ایک تین جھونپڑوں والے گاؤں کے پاس رات ہوگئی۔ یہ تینوں جھونپڑیاں دراصل تین چڑیلوں کی تھیں جو سورج ڈوبتے ہی پیڑوں پر جابستی تھیں۔ چڑیلوں نے قبائلی سے سور چھیننے کی بھرپور کوشش کی کہ اسلیے ان سے بچنے کے لیے ایک مقامی کسان کے گھر میں پناہ لینی پڑی۔ قبائلی کے لئے وہ رات بد روحوں والی رات ثابت ہوئی۔ صبح ہوتے ہی قبائلی نے فیصلہ کیا کہ وہ سور کے ساتھ ان راستوں سے گزر کر کبھی اپنے گھر نہیں پہنچ سکتا۔ لہذا اس نے کسان کو وہ سور تحفے کے طور پر دے دیا جسے اس کی بیٹی نے فوراً ایک نام دے ڈالا اور سرسوں کے کھیت میں سیر کرانے چل دی۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے