Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Syed Hasan Razaa's Photo'

سید حسن رضا

1912 - 1992 | کراچی, پاکستان

سید حسن رضا کا تعارف

تخلص : 'حسن'

اصلی نام : سید حسن رضا شاہ جلالی علیگ

پیدائش :بجنور, اتر پردیش

وفات : کراچی, سندھ

نام: سید حسنؔ رضا شاہ جلالی علیگ

پیدائش:بجنور ۔یوپی ہندوستان

سن پیدائش: 1912ء

تعلیم:میٹرک۔انٹرمیڈیٹ شعیہ کالج لکھنؤ ،یوپی ہندوستان

بی اے۔ایل ایل بی۔ایم اے عربی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

1931 ءسے 1936ء ۔ایم اے اردو،سندھ یونیورسٹی 1966ء

منشی عالم۔منشی فاضل۔ادیب عالم۔ادیب فاضل۔کراچی پاکستان

پیشہ:وکیل،سرکاری ملازمت،ادیب،صحافت،مترجم،درس و تدریس

تصنیفات:

کلّیات سید حسنؔ رضا شاہ جلالی-1

لمحات:غزلیں، نظمیں-2

آبگینہ فنِ شعر میں جوشؔ ملیح آبادی کی جھلک-3

درسِ حیات-4

جامِ دل-5

السجّاد-6

گُل دستہِ انسانیت-7

گُل کدہِ انسانیت-8

جو نیرہسٹری آف اسلام-9

مسنوی نوائے دل-10

ہجرت:ہندوستان سے پاکستان ۔ستمبر 1947ء

وفات: کراچی ،پاکستان۔ستمبر 1992ء

سید حسن رضا برصغیر ہندو پاک کےصوبہ یوپی جو کئی صدیوں تک اسلامی تہذیب اور علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ایک ذی علم صاحبِ حیثیت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں حاصل کی۔1931ء میں انٹرمیڈیٹ پاس کرکے معروف درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رُخ کیا۔بی۔اے۔ایل ۔ایل ۔بی اور ایم۔اے عربی کے امتحانات پاس کرکے علی گڑھ کے ایک اسکول میں ہیڈ مدرس ہوگئے۔بعد میں روزنامہ جنگ دہلی میں صحافت شروع کردی۔1940ء میں ہردوتی میں وکالت کا آغاز کیا۔تحریکِ پاکستان میں حصہ لیااور پاکستان وجود میں آنے کے بعد پاکستان ہجرت کی۔لیکن لکھنؤ کی یاد دل سے کبھی محو نہیں ہوئی جسکا اظہار اسطرح کیا کہ

چمن چُھوٹا تو چُھوٹا تھا مذاقِ رنگ و بو چُھوٹا      چُھٹی آدم سے جنت اور ہم سے لکھنؤ چُھوٹا

پاکستان آکر سندھ لاکالج میں لکچرر کی ملازمت اختیار کی۔ساتھ ساتھ عربی فارسی کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔منشی عالم اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کئے۔پاکستان کی سرکاری ملازمت جو ائن کی ۔کراچی اور خیر پور میرس میں کسٹوڈین مقررہوئے۔چند سال بعد پھر سے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔جو آخری عمر تک چلتا رہا۔

سید حسن رضا جلالی طبعاََ فطری شاعر تھے۔شاعری کی جانب بچپن ہی سے راغب تھے۔ہائی اسکول سے ہی شاعری شروع کردی تھی۔ بے خود موہانی جیسے استاد بھی مل گئے جس سے شاعری میں پختگی بھی آنی شروع ہوئی۔طبیعت کا انداز شاعرانہ تھا۔اس پر لکھنؤ کی ادب خیز اور شعر پرور فضاءنے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔شاعری کا ابتدائی سلسلہ انٹرمیڈیٹ تک رہا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آنے کے بعد غزل گوئی کا سلسلہء بھی شروع ہوگیااور علی گڑ ھ کےعلمی اور ادبی ماحول نے حسن رضا کی شاعری کو اور جلا بخشی۔ابتداء ہی سے حسن تخلّص رکھا۔نام کے آخر میں شاہ جلالی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مناسبت سے علیگ لکھنا شروع کیااور آہستہ آہستہ اردو کے ایک پختہ کار ادیب اور شاعر ہوگئے۔لیکن منظرِ عام پر آنے سے ہمیشہ گریزاں رہے۔اسکا اظہار اسطرح کیا ۔

ایک گو ہرِ مدفون ہوںبے نام و نشاں ہوں     میں جوہری و شاہ کی نظروں سے نہاں ہوں

کافی عرصے تک انکا کلام کاغذوں میں بکھرا پڑا رہا۔لیکن حسن رضا صاحب نے اشاعت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔

حسن رضا صاحب کی غزلیں،نظمیں وغیرہ ایسے شخص کے خیالات کی عکاس ہیں جس نے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر سخت ناقدانہ نگاہ ڈال کر اپنے تجربوں ،مشاہدوں اور زاویہ ہائے نگاہ کا نچوڑ شعری لباس میں پیش کیا ہے۔حسن رضا کی حق پرستی اور ہمیشہ غلط کو غلط کہناانکے کلام سے آشکار ہیں۔

حسن رضا صاحب نے دنیاوی مصروفیات اور عالمی سیاحت میں مصروف رہنے کے باوجود جو ادبی اور شعری سرمایہ چھوڑا ہے وہ اردو زبان کا ایک عظیم سرمایہ ہے۔انکا ایک شعر ہے کہ

                           زندگی میں مری غزلوں کا تو چرچہ ہی رہا       اصل دیوان مگر میرا چھپا میرے بعد

            سید حسن رضا صاحب جناب جوشؔ ملیح آبادی کے بڑے مداح تھے۔جوشؔ ملیح آبادی کی نادرکلامی۔حسنِ بیان اور فن شاعری پر حسن رضا نے کتاب لکھ کر اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔انہوں نے جوش کی نظموں سے مرکّب اضافی اور مرکّب توصیفی کے ایک ہزار نمونے، تشبیہات اور استعارات،بے شمار محاکات اور معادرات کو چن کر اپنی تحقیقی کتاب" آبگینہ فنِ شعر" میں ایک جگہ جمع کیا ہے۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے