- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
طارق چھتاری کے افسانے
لکیر
آج سورج غروب ہونے سے پہلے بادلوں بھرے آسمان پر عجب طرح کا رنگ چھا گیا تھا۔ یہ رنگ سرخ بھی تھا اور زرد بھی۔ ان دونوں رنگوں نے آسمان کودرمیان سے تقسیم کر دیا تھا۔ جس مقام پر دونوں رنگ مل رہے تھے، وہاں ایک گہری لکیر دکھائی دیتی تھی۔ دھیان سے دیکھنے پر
باغ کا دروازہ
گرمیوں کی تاروں بھری رات نے گھر کے بڑے آنگن کو شبنم کے چھڑکائو سے ٹھنڈا کر دیا تھا۔ جیسے ہی دادی جان نے تسبیح تکیے کے نیچے رکھی نوروز کود کر ان کے پلنگ پر جا پہنچا۔ ’’دادی جان جب سبھی شہزادے باغ کی رکھوالی میں ناکام ہو گئے تو چھوٹے شہزادے نے بادشاہ
نیم پلیٹ
’’کیا نام تھا اس کا؟ اف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘ کیدارناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹاکر پھینک دیااور اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ’’یہ کیا ہوگیا ہے مجھے، ساری رات بیت گئی نیند ہی نہیں آ رہی ہے۔ ہوگا کچھ نام وام، نہیں یاد آتا تو کیا کروں، لیکن نام تو یاد
آدھی سیڑھیاں
سعیدہ بیگم اپنے کمرے سے نکل کر دہرے دالان سے ہوتے ہوئے احمد کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ’’اٹھ گئے بیٹے؟‘‘ ’’جی امی جان۔۔۔‘‘ احمد آنکھیں ملتا ہوا بستر سے اترکر کھڑا ہو گیا۔ ’’آفتابے میں گرم پانی رکھ دیا ہے، جائو منہ دھولو۔‘‘ احمد نے منہ دھو
شیشے کی کرچیں
وارڈ کے سب مریض گہری نیند سوتے رہے اوروہ صبح کے انتظار میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح ہوتے ہی مریمؔ اپنی ٹیم کے ساتھ سفید ایپرن پہنے، گلے میں آلہ لٹکائے آہستہ سے آئے گی اور پوچھےگی۔ ’’کوئی پرابلم ؟‘‘ ’’جی نہیں ڈاکٹر۔۔۔‘‘وہ ہمیشہ یہی کہتا
آن بان
’’کیا؟ ہری سنگھ کی شادی ہو رہی ہے؟ ارے کسی نے یوں ہی اڑا دی ہوگی۔‘‘ ’’اجی نہ چودھری صاحب، بات سولہو آنہ پکی ہے۔‘‘سندر نے کہا۔ ’’مگر بھئی، یہ ہوا کیسے؟‘‘ ’’کان میں اڑتی اڑتی پڑی ہے کہ گھٹیا والے ننوانے بات لگائی ہے۔‘‘ سندر گردن کا میل چھڑاتے
کھوکھلا پہیا
’’ہم تو خدا کے بنائے ہوئے پہیے ہیں، کھوکھلے پہیے۔۔۔ وہ جس طرح چاہتا ہے گھماتا ہے اور اگر ہم گھومنے سے انکار کریں۔۔۔ انکار؟ انکار کیسے کر سکتے ہیں، ہمیں تو گھومتے ہی رہنا ہے، کبھی مرضی سے اورکبھی مرضی کے بغیر۔‘‘ وہ ہر شام دھندے پر نکلنے سے پہلے
تین سال
علی جان کو اپنے ماتھے پر بندھے سہرے کی لڑیاں لوہے کی زنجیروں سے بھی زیادہ وزنی اور خوفناک لگ رہی تھیں۔ وہ پھولوں میں منہ چھپائے کچھ اس طرح سہما ہوا بیٹھا تھا جیسے چڑیا کا بچہ سر پر باز کواڑتے دیکھ کر سہم جاتا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ مرزا مجید اپنے ساتھ
بندوق
شیخ سلیم الدین عشاء کی نماز کے بعد حویلی کے دالان میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ ان کابیٹا غلام حیدر بھی مونڈھا کھینچ کران کے پاس ہی آن بیٹھا۔ ’’ابا حضوران دنوں فضا ٹھیک نہیں ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ بازار میں کچھ مشکوک چہرے آپ کا تعاقب کرتے ہیں۔ وہ قصبے سے
پورٹریٹ
’’آج وہ اس پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پرجاکر تصویر بنائےگا۔ وہ برسوںسے بھٹک رہا ہے۔ کبھی نالندہ کے کھنڈروں میں اور کبھی بودھوں کے پرانے مندر کے اردگرد۔ اس نے راجگیر کے برھما کنڈ میں اشنان کرتی دوشیزائوں کی تصویریں بنائی ہیں تو کبھی کشمیر کی پہاڑیوں سے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-