تاشی ظہیر صاحب ایک معروف ادبی خانوادے کے فرد ہیں۔ ان کے والدین ۱۹۴۷ میں دہلی سے ہجرت کر کے لاہور، پاکستان آئے اور تھوڑے عرصے بعد وہاں سے ملتان چلے گئے۔
تاشی صاحب کی پیدائش ۲ دسمبر ، ۱۹۴۷ کو ہوئ۔آپ نے ب-اے تک کی تعلیم ملتان ہی میں حاصل کی پھر گورنمنٹ کالج ، لاہور سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ دو سال لا کالج بھی گئے لیکن امتحان سے صرف ایک ماہ قبل حبیب بنک کی جانب سے ملازمت قبول کر لی۔
۱۹۷۶ میں تاشی صاحب امریکہ آگئے۔ یہاں انہوں نے واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری لی اور پھر Finance میں MBA کیا۔
پیشے کے اعتبار سے تاشی صاحب ایک بینکر ہیں۔ پاکستان میں کئ برس حبیب بینک کی مازمت کے بعد، امریکہ میں انہوں نے امریکہ میں Wells Fargo Bank اور Citibankمیں کام کیا اور ۲۰۰۰ میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر، اپنے ایک عزیز دوست اور بہت اچھے شاعر فیاض الدین صائب کے ساتھ ملُکر “ سان فرانسسکو بے ایریا میں “اُردو اکیڈیمی، شمالی امریکہ” کی بنیاد رکھی۔
گزشتہ اٹھارہ برس سے تاشی صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ اُردو اکیڈیمی چلا رہے ہیں۔
اپنی نوعیت کا یہ واحد ادارہ ہے جو ۱۵ برس سے زائد عرصے سے ماہانہ محافل کا انعقاد کر رہا ہے۔
تاشی صاحب کے مطابق اُردو اکیڈیمی کی کامیابی کا سہرا بے ایریا میں واقع مشہور ریسٹورانٹ “ چاندنی” کے مالک اور تاشی صاحب کے بہت قریبی دوست، جناب سید ثروت کے سر ہے جنہوں نیں سالہا سال اردو اکیڈیمی کی سر پرستی کی اور اسے ماہانہ ادبی محافل کے انعقاد کے لئے جگہ فراہم کی۔
اردو اکیڈیمی کو معرضُِ وجود میں لانے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کے باشندوں کو ایک چھت کے تلے جمع کیا جائے تاکہ وہ مل کر اپنے نہایت قیمتی ثقافتی اور ادبی ورثوں کو نا صرف محفوظ کر سکیں بلکہ ملُکر اردو شاعری اور ہندوستانی/ پاکستانی موسیقی کو پروموٹ کریں۔
تاشی صاحب بہت فخر سے کہتے ہیں کہ “اردو اکیڈیمی ایک خاندان ہے۔ یہاں کوئ ہندو، سکھ، عیسائ اور مسلمان نہیں ہے۔ ہم سب بہن بھائ ہیں جو اپنی وراثت پر فخر کرتے ہیں ، اپنی روائتی تہذیب پر ناز کرتے ہیں۔ زبان و ادب اور موسیقی کو دروغ دیتے ہیں”۔
تاشی صاحب چونکہ ذاتی وجوہات کی بنا پر ایک طویل عرصہ ادبی سین سے غیر حاضر رہے ہیں اس لئے ان کے تعارف کے لئے ہم نے ان کی کتاب “شام کی آہٹ” سے ایک اقتباس مستعار لئا ہے:
اُردو زبان و ادب کے مستند نقاد اور استاد، جناب پروفیسر ڈاکڑ فرمان فتحپوری کے مطابق، “تاشی صاحب کلاسیکی لب و لئجے کے رومانی شاعر ہیں۔ تخلیقِ شعر کے لیے وہ خود کاوش نہیں کرتے بلکہ شعر ان پہ نازل ہونے کے لئے بیتاب رہتا ہے۔
زندگی کاہمہ گیر تجربہ، ان کے اشعار کی لفظیات،اور ان کی طرزِ فکر دونوں سے نمایاں ہے لیکن یہ تجربہ میکانکی نہیں ہے بلکہ تخلیقی اور وجدانی ہے۔ نتیجتاً ان کی نظمیں بھی غزل نما ہیں اور قاری کے ذہن کو غزلیت کی اسی لطافت اور گدازِ قلب کی اسی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہیں جسے ایک بلندپائہ غزل گو شاعر کا طرہ امتیاز کہا جا سکتا ہے۔