- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
اسلوب احمد انصاری کا تعارف
اسلوب احمد انصاری 1925ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1946ء میں انگریزی سے ایم اے کیا اور فرسٹ کلاس آئے۔ 1947ء میں اسی یونیورسٹی میں انگریزی کے لکچرر ہوگئے۔ ابھی علم کی پیاس بجھی نہیں تھی لہٰذا لندن گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوئے۔ 1959ء میں شعبہ انگریزی کے ریڈر ہوگئے اور 1967ء میں پروفیسر ہوگئے۔ 1965ء سے 1984ء تک وہاں کے صدر شعبہ رہے۔ ان کی اردو کتابوں کی تفصیل یہ ہے:
’’ادب اور تنقید‘‘، ’’نقش غالب‘‘، ’’اقبال کی تیرہ نظمیں‘‘، ’’نقش اقبال‘‘، ’’اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں‘‘ ’’اقبال: حرف و مومن‘‘، ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ (غالب) ’’اطراف رشید احمد صدیقی‘‘، ’’اردو کے پندرہ ناول‘‘، ’’آئینہ خانے میں‘‘، ’’نذر منظور‘‘ (ترتیب) ’’غزل تنقید‘‘ (دوجلدوں میں) (ترتیب)، ’’غالب: جدید تنقیدی تناظرات‘‘، ’’اقبال: جدید تنقیدی تناظرات‘‘، ’’تنقیدی تبصرہ‘‘، ’’حرف چند‘‘۔
ان کتابوں کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اسلوب احمد انصاری کا تنقیدی شعور مختلف صنفوں کے تجزیے کی طرف مائل رہا ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے غالب اور اقبال کے مطالعات سے گہری دلچسپی لی تو دوسری طرف منتخب ناولوں کے معیار ومنہاج سے بحث کی۔ متفرق طرز کے مضامین بھی لکھے۔ لیکن مجموعی طور پر اس کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اقبال سے غایت دلچسپی رکھی ہے اور ان کی شاعری کے بعض گوشوں کو منور کرنے کی کوشش کی۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ اسلوب احمد انصاری کے اردگرد کسی ازم کا حصار نہیں۔ نتیجہ میں وہ آزادانہ طور پر اپنے ذوق کی روشنی میں ادبی تجزیے کے مشکل مرحلے سے گزرتے رہتے ہیں۔ انہیں کسی رائج اسکول سے وابستگی عزیز نہیں اس لئے ان کی تنقید میں مختلف رنگ پائے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں نیوکریٹی سزم کی جھلکیاں ملتی ہیں تو کہیں ان کے متضاد طریق کار کارکی بھی۔ گویا ایک طرح سے ان کی تنقید ان کے ذہن کی اوٹونوی کا پتہ دیتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی فن پارہ پڑھنے والوں پر تفہیم کا باب مطلقاً کھول دے۔ اس عمل میں وہ ریاضیاتی تجزیے سے گزرتے ہوتے ہیں اور پہلے کسی شعری فن پارے کو معنوی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے طور پر اس کے معیار کی باتیں کرتے ہیں۔ گویا ان کی غایت بس اتنی ہے کہ تفہیم کا عمل سرانجام پاجائے۔ عام طورسے ان کا رویہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ شعری یا نثری تجزیے میں عیوب سے زیادہ محاسن کی تلاش کرتے ہیں۔ اس عمل میں ان کا ذاتی ذوق اور مطالعہ بھی رہنما ہوتا ہے لیکن شاعر یا مصنف کے حق میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ زیادہ تر خوبیوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
اسلوب احمد انصاری کی تحریر میں کہیں پیچیدگی نہیں ہوتی۔ وہ باتوں کو کھل کر بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں بعض امرطولانی بن جاتے ہیں اور کہیں کہیں تکرار کی بھی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا شخص جو انگریزی ادبیات سے ساری زندگی وابستہ رہا وہ کوئی واضح ادبی نقطہ نظر کیوں نہ پیدا کرسکا۔ یہ بات بعضوں کو الجھن میں ڈال سکتی ہے۔
اسلوب احمد انصاری نے انگریزی میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ انگریزی میں کم ازکم ان کی آٹھ دس کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں دو طبع زاد اور چھ ترتیب دی ہوئی ہیں۔ طبع زاد کتابوں میں ایک ولیم بلیک پر ہے۔ مرتبہ کتابوں میں ان کے پیش نظر ملٹن، جان ڈن، سروالٹر ریلے اور اقبال اور سرسید ہیں۔ انہوں نے مختلف انگریزی رسالوں میں بھی چند مضامین لکھے ہیں۔ موصوف نے جو مضامین شیکسپیئر سے متعلق لکھے ہیں وہ ایک اطلاع کے مطابق مغرب میں پسند کئے گئے ہیں، جن بعض حوالے بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔
اسلوب احمد انصاری کو صحافت سے بھی دلچسپی رہی ہے۔ وہ اردو میں 1979ء سے 2001 ء تک ’’نقدرونظر‘‘ جیسا اہم جریدہ نکالتے رہے۔ انگریزی کے علیگڑھ جنرل آف انگلش اسٹڈیز اور علی گڑھ کرٹیٹیکل مسیلینی کے بھی بنیاد گزار اور ایڈیٹر رہے ہیں۔
اسلوب احمد انصاری کو کئی ادبی انعامات مل چکے ہیں، جن میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ اور غالب ایوارڈ بھی ہیں۔موضوعات
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n50021281
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-