وسیم عقیل شاہ کے افسانے
آہِ بے صدا
پلیٹ فارم نمبر 3 پر واقع لکڑی کے خستہ تختوں سے بنی اپنی چھوٹی سی دکان' واسو بک اسٹال' میں بیٹھی 21 سالہ آشا آج بھی کسی گہری فکر میں ڈوبی ہوئی تھی۔فکر کے یہ گہرے سائے آج اُس کے پر کشش سانولے چہرے پر خوف بن کر چھائے ہوئے تھے۔اُس کے دائیں بائیں اور پشت
بجھے ہوئے دیے
دیوالی کی صبح امیشا کی آنکھ ایک دھڑکے کے ساتھ کھلی ـ شاید وہ کوئی ڈراؤنا سا خواب دیکھ رہی تھی ـ آنکھیں ملتے ہوئے چار پائی سے اتری اور اپنے پاپا کو تلاش کرنے لگی ـ اس نے گھر کے دونوں کمروں میں دیکھا مگر اس کے پاپا گھر میں نہیں تھے ـ وہ برامدے کی طرف لپکی
روایت
"رحمت ہو تجھ پر اے اللہ کی بندی، تیرا در سخی کا در اس سوالی کا سوال پورا کر ـ" اس گونج دار فریاد کے ساتھ ہی آمین آمین کی مترنم تکرار سے سناٹے میں ڈوبا پورا کاریڈور دھمک اٹھا ـ چند ہی ساعتوں میں یوں لگا جیسے کسی نے 'سن رائز اپارٹمنٹ' کی مردنی چھائی