وسیم فرحت علیگ کے مضامین
معروضی تنقید
اردو تنقیدکی تفہیم کے لیے ہم ذرا پیچھے دیکھیں تو میر تقی میرؔ کے ’’نکات الشعراء‘‘ پر نظر پڑتی ہے۔جہاں لفظ ’انتقاد‘ حقیقی معنوں میں برتا گیا ہے۔شعری تنقید کے ضمن میں ہم جو چاہیں پیمانے وضع کرلیں،لیکن کسی نگارش کی خوبی و خامی کے اظہار کے بناء تنقید غیر
ہندوستانی ادب کا تشکیل کار ماہنامہ ’نیا دور‘
کم و بیش دو دہائی سے اپنے معیار سے قطعاً سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے ایک خالص ادبی رسالہ سہ ماہی’اردو‘ کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے میں عملی طور پر بھی اس رمز سے آشنا ہوگیا ہوں کہ کسی بھی زبان و ملک کے ادب کی تشکیل میں اس زبان کے رسائل کس درجہ اہم اور
’مشکور‘ کی فصاحت
چار صدیاں گزر گئیں۔’ زبان ِاردو‘کی تراش خراش میں سیکڑوں رسالے،مقالات ،پرچہ جات،فرہنگیں،لغات لکھے اور ترتیب دیے گئے۔ لیکن تا حال اردو کو ایک منضبط ’ زبان‘تسلیم کرلینے میں خود اردو طبقے کو اعتراض ہے۔ بہ ایں ہمہ،زبان کو اپنی علمیت کا تختہء مشق بناتے ہوئے
پنچ آہنگ
کسی شاعر کو فوری شہرت دلانے والی واحد صنفِ سخن غزل ہے۔چہ جائیکہ غزل کو اس کارِ خیر کی بڑی بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔تاہم شاعر صاحب فوری طور پر غزل کے توسط سے مشہور ہوجاتے ہیں۔موجودہ دور جدید تکنیک و نئے مزاج کا دور ہے۔تعمیر نما تخریب اور تخریب نما
خمارؔ کی سرور آگیں شاعری
نیاز فتح پوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’دو طرح کے فنکاروں پر کچھ لکھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ایک تو وہ کہ جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہو اور دوسرے وہ کہ جن پر کچھ نہ لکھا گیا ہو‘۔خمارؔ بارہ بنکوی کا شمار ثانی الذکر میں کیا جانا چاہیے۔سخت حیرت ہوتی ہے کہ خمارؔجیسے
نداؔئے احتجاج: ندا ؔفاضلی
غالبؔ نے کہا تھا کہ ، سنگ و خشت از مسجد ویراں می آرم بہ شہر خانہ ای در کوی ترسایان عمارت من کنم (میں ٹوٹی مسجد کے پتھر اور اینٹ کو شہر میں لاکر بت پرستوں کے محلے میںگھر بنا رہا ہوں) ندا ؔفاضلی کے بیش تر نقادوں نے (بشمول وارث علوی)ان کے رویہء احتجاج
مجسم کیف:کیفی ؔاعظمی
برطانوی فلسفی برترانڈ رسل نے کہا تھا کہ، ’’ہمارے پاس دو قسم کی اخلاقیات ہیں،ایک وہ جس پر ہم عمل کرتے ہیں اور دوسری وہ جس کی ہم صرف تبلیغ کرتے ہیں۔‘‘ ترقی پسند تحریک کے سب سے جونیئر لیکن ’وفاداری بشرطِ استواری‘ میں بہتوں سے سینئر،پر کیف شاعر کیفیؔاعظمی
جدید غزل کا امام :یگانہؔ چنگیزی
سرورِ کائناتؐ نے فرمایا ، ’’ماھلک امر وعرف قدر نفسہ‘‘ (جس آدمی نے اپنی قدر پہچان لی وہ کبھی برباد نہ ہوگا) اس قولِ فیصل کے یہاں اندراج کا محل کچھ آگے چل کر سمجھ آئے گا۔سر ِدست امام الغزل ابوالمعانی میرزا یگانہؔ چنگیزی کے فن کا جائزہ لیا جائے تو میں
جاں نثار اخترؔ: ایں ہمہ خانہ آفتاب است
میں بہت ذمے داری کے ساتھ یہ بات عرض کرتا ہوں کہ اردو ادب کی تاریخ میں بجز جاں نثار اخترکسی اور شاعر یا فنکار کے حصے میں اس قدر طویل اور قدیم خاندانی روایت و ورثہ نہیں آیا۔بلکہ خود پدری علمی وراثت کے ساتھ ساتھ سسرالی وارثت بھی بہ یک وقت جاں نثار اختر
جاں نثارِ اردوڈاکٹر گنیش گائیکواڑؔ
ہندوستان عرصہ ہائے درازسے ہمہ رنگی اور گنگا جمنی تہذیب کا دامن تھامے ہوئے ہے۔علی الخصوص اردو زبان نے بلا تفریقِ قوم و ملت ہر فنکار کو اپنی بانہوں میں بھرا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔تہذیبوں کے اس انوکھے ملن سے ہی ہندوستانی مشترکہ