ظفر گورکھپوری کا تعارف
کتنی آسانی سے مشہور کیا ہے خود کو
میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دے کر
ظفرالدین ظفر گورکھپوری کی پیدائش 5 مئی 1935ء کوبیدولی بابو بانس گاؤں (ضلع گورکھپور) میں ہوئی۔ 1944 ء میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ممبئی آئے۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ جدیدیت کے زمانے میں جدت پسندوں کے ساتھ رہے۔
ابتدا میں ممبئی کارپورٹس کے پرائمری اسکول کےٹیچر رہے۔ ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ ان دنوں ممبئی کےایک پاش علاقے میں رہ رہےہیں۔ چند فلموں میں گیت لکھے مگر کامیابی ان کے ہاتھ نہیں لگی یہ میدان چھوڑ دیا۔ ادبی رسالوں میں چھپتےچھپاتے رہے اور یہی وجہ ہےکہ شعر وادب کی دنیا میں ان کا نام بڑا اہم ہے۔ قوالوں اورغزل سنگر نے ان کی غزلیں خوب گائی ہیں۔ اب تک ان کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں ’’تیشہ‘‘، ’’وادیٔ سنگ‘‘، ’’گھگھرو کے پھول بڑے اہم ہیں‘‘، بچوں کی نظموں کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
روایتی ترقی پسندی اور جدید شاعری کے ستونوں سے ظفرؔ گورکھپوری کی شاعری کاجو اتھاہ سمندر سامنے آتا ہے، وہ اکتسابی ہے نہ کہ نقل بلکہ ظفرؔ گورکھپوری کی شاعری کا وہ وشال ساگر ہے جس میں زندگی کی تمام قسم اور رنگ کی مچھلیاں موجود ہیں۔ ان کا حصول صرف انہیں لوگوں کے بس کا کام ہے، جو فن کے شکاری اور جویا ہیں۔ اور ظفرؔ گورکھپوری کی یہی شناخت بھی ہے۔ قاضی عدیل عباسی، فراقؔ گورکھپوری اورپروفیسر مجنوں گورکھپوری کے بعد ظفرؔ گورکھپوری سے گورکھپور کی پہچان قائم ہو رہی ہے۔ فراقؔ، مجنوں، عدیل عباسی کے گورکھپور میں کسی ایسے منفرد شاعر، نقاد اور محقق کا ابھرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ گورکھپور کی مٹی میں وہ علمی و ادبی زرخیزی رچی ہوئی ہے جو مسلسل قدر آور فنکاروں کو جنم دیتی چلی آرہی ہے۔
دو دوعالمی جنگوں کے بعد برصغیر میں تقسیم کا عمل،انسانی خون کی ارزانی اور بے وقعتی اپنی مثال آپ ہے۔ حالات کے اس پس منظر سے جو شاعرحساس دل و نگاہ لےکر اٹھا تھا وہ نہ تو اشتراکی تھا نہ جدید۔ وہ بشر تھا اور نوع بشر کے درد میں خود بھی ڈوبا ہوا تھا۔ اس لئے اس نے ترقی پسندوں کے رائج نظمیہ فارم میں متعدد نظمیں کہیں، جو بظاہر بازگشت کی سی معلوم ہوتی ہیں، لیکن آہستہ آہستہ صحت مند فکری انقلاب نےظفرؔ گورکھپوری کو غزل کے گم ہوتے ہوئے نرم و نازک لہجے کو دریافت کرنےپر اکسایا لیکن ان کی غزل میں غالبؔ، میرؔ وغیرہ کے انداز نہیں آسکے بلکہ جگرؔ مرادآبادی، شفیقؔ صدیقی جونپوری اور روشؔ صدیقی کے شرمیلے انداز آئے، اس میں جوش کی مردانگی اور طمطراق ضرور پائے جاتےہیں لیکن یہ سفر بھی عارضی رہا۔ بہت جلد ظفرؔ کی غزل کی شاعری میں ایک اور صحت مند تبدیلی آئی۔ اس میں اور وسعت، توانائی اورلفظی برنائی آئی۔ عصری مسائل کو غزل کے سانچے میں ڈھالنے کی ہنرمندی آئی۔ ظفرؔ گورکھپوری کی غزل نئی غزل کے قالب وپیراہن میں ڈھل کر سامنے آئی۔
ظفرؔ گورکھپوری کی شاعری اور اس کا عہد وہی ہے۔ جب ترقی پسند شاعری نامانوس اجنبی اورٹمٹماتا دیا ہونے لگی تھی اور مجازؔ و جذبیؔ مجروحؔ و فیضؔ کے ساتھ ہی ساتھ سردارؔ جعفری کی غزلیں سامنےآنےلگی تھیں۔
اور’’زبان میرؔ میں صاحب کبھو کبھو کہئے‘‘ جیسے مصرعے سردارؔ جعفری کی نظم نگاری کے رجحان کو غزل کی سمت موڑ رہےتھے اور یہی وہ زمانہ بھی تھا جب روس سے اسٹالن مرچکا تھااوراسٹالن ازم کی موت کےسامان کئے جارہےتھے۔ اشتراکی فنکار اوردانشور ٹھٹھک کر حالات دیکھ رہےتھے، اردو شعروادب میں بظاہر جمود کی کیفیت طاری تھی۔ عین اسی زمانے میں ممبئی سےہی نوجوان مصنفین کی نئی آواز گونجی۔ بظاہر یہ کمزور تھی لیکن بہت جلد اسے استحکام حاصل ہوگیا۔ ظفرؔ گورکھپوری اسی نسل کے شاعرہیں، ان کی شاعری میں ترقی پسند شاعر کا لہجہ و آہنگ بھی ہےاور نئی غزل کی مدھم مدھم صورتی لہریں بھی ہیں۔ ظفرؔ گورکھپوری کی نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو لگتاہے کہ اپنے سے ماسبق کسی لہجے اور فارم کا عطر اس میں کشید کرلیا گیا ہے اور معری اور آزاد ہر قسم کی نظمیں کہی گئی ہیں۔ لیکن ظفرؔ نےسب میں اپنی شناخت اور اپنے عصرکو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔ مسکراتے زخم، کلاکار،کچھ بےنام بگولے، منافع، دیپک راگ، بڑا ہے درد کا رشتہ، کرب کی کالی دیوار میں، غرقابی سےپہلے ایک دلکش انوکھے جذبےکو سامنے لاتی ہے۔
اس طرح ظفرؔ کی نظمیں جو ترقی پسند شاعری کے ’’حالات کوما‘‘ کے زمانےمیں سامنے آئی ہیں۔ ان کی وجہ سے دم بخود بے حس و حرکت سماج اور اس میں فن متحرک ہوئے ہیں اور اس میں نئے انداز نمایاں ہوئے ہیں۔
دعاؤں سے قسمت بدلتی نہیں، کی شاعری کے دم بخود ہوجانے کے بعد ظفرؔ بڑےاعتماد سے دعاکرتےہیں اور خدائے برتروبالا سےہم کلام ہو کر عرض کرتے ہیں۔ ’’مجھےپھر اشرف المخلوق کردے‘‘۔ ظفرؔ کےاس مصرع میں ایک نئے عہد کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ جو کھوکھلی مادیت کے مقابلے میں ماورائیت اور مافوق الفطرت انداز سےتجدید وفاکرتی نظر آتی ہے۔
اس لئے ظفرؔ گورکھپوری کی شاعری اپنے عہد کے علمی اندھیرے کو روحانی نور دینے کی ایک شعوری کوشش ہے۔ اس میں انسان کےاعلی جذبے کی دھنک رچی ہوئی ہے۔ ارذل، پست اور سفلی خیالات، جودودہائ تک (1936ء1958ء) اردو شعر و ادب کو اپنی لپیٹ میں مختلف خوبصورت نظریات اوران کی اصطلاحات کے ذریعے لپیٹے رہے، وہ اس نئی شاعری سےمفقود اورکالعدم ہوتےدکھائی دیتےہیں۔ سچائی کاسورج اپنی پوری تمازت اورروشنی کےساتھ نہ سہی، لیکن اپنی کرنیں آہستہ آہستہ ضرور پھیلاتا نظرآتا ہے۔ یہ اس عہد کے انسان کی کشمکش کی بنیاد ہے۔ جسے غزل کے لفظوں میں غزل کی نرم، گھنی اور شاداب چھاؤں میں پیش کر کے ظفرؔگورکھپوری نےاسی نئی غزل کی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جو اردو غزل کا مستقل روپ ہے۔
ظفرؔ گورکھپوری کا فکری میلان اور ان کا شعری فن دراصل اپنے عہد کے کرب کا اظہار ہے اور اسی کے ساتھ شاعر نے اپنے فن سے پڑھنے والوں کو نہ صرف اس کرب سے آگاہ کیا ہے بلکہ اس تاریکی کو اجالے کا جذبہ بھی دینے کی کوشش کی ہے۔
ظفرؔ نے نئی غزل میں نئی زبان بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور امکان بھر ہندوستان میں بننے والی نئی اردو زبان میں شاعری کے دیئے روشن کئے ہیں۔ اس لئے اس میں زیادہ شدت، زیادہ تازہ کاری اور زیادہ اثر انگیزی ہے۔ 2017 میں ممبئی میں ان کا انتقال ہوا۔