وائے خوش فہمی کہ پرواز یقیں سے بھی گئے
آسماں چھونے کی خواہش میں زمیں سے بھی گئے
ظفر کلیم زمانۂ طالب علمی سے شعر کہہ رہے ہیں۔ ابتدا میں روایتی انداز اپنایا مگر ڈاکٹر حمیداللہ خاں آذر سیمابی کی رہنمائی میں ان کی سوچ وفکر میں تغیر آیا۔ جدید لہجے کو جن شعرا نے جلد قبول کیا اور اپنی شاعری میں بھی برتا ان میں ظفر کلیم کا نام اہم ہے۔
ظفر کلیم کا اولین شعری مجموعہ ’’طلسم غزل‘‘ (1981ء) میں منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد ’’نوائے حرف خموش‘‘ (2007ء) میں شائع ہوا۔ ظفر کلیم سوچ سمجھ کر اور پورے شعور وادراک کے ساتھ شعر کہتے ہیں۔ ان کے کلام میں ذات کی شکست وریخت کی داستان قدرے جھنجھلاہٹ کے ساتھ ہے جس میں احتجاجی آہنگ غالب ہے۔