- کتاب فہرست 182523
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1901
طب839 تحریکات286 ناول4203 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1431
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1009
- ہائیکو12
- حمد37
- مزاحیہ36
- انتخاب1525
- کہہ مکرنی6
- کلیات657
- ماہیہ19
- مجموعہ4695
- مرثیہ368
- مثنوی802
- مسدس54
- نعت515
- نظم1154
- دیگر67
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ57
- رباعی282
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
ذاکر فیضی کے افسانے
ٹی۔ او۔ ڈی
وہ اسٹوری ٹیلر کے نام سے اس قدر مشہور ہو چکی تھی کہ لوگ اس کا اصل نام تک نہیں جانتے تھے۔ کبھی کبھی اس کے فن اور شخصیت پر کوئی مضمون شائع ہوتا تو اس کا اصل نام سامنے آجاتا تھا ورنہ وہ زمانے کے لئے اسٹوری ٹیلر ہی تھی۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کے بڑے بڑے شہروں
وائرس
معصوم نے قاتل کی جانب موبائل بڑھاتے ہوئے کہا۔ ”بھیّا۔۔۔ م۔۔۔ می۔۔۔ میری۔۔۔ ماں سے کہنا۔۔۔ میں مرگیا۔“ یہ الفاظ اداکرتے ہوئے اس نے اپنے جسم کی تمام طاقت کو موبائل پکڑے ایک ہاتھ اور دونوں آنکھوں میں سمیٹ لیاتھا۔ مگر یہ جملہ پورا ہوتے ہوتے اس کی ساری طاقت
نیا حمام
تین سال کی اندھی، گونگی اور بہری بچّی کو کیسے مارا جاناہے۔ اس کا فیصلہ آج کی آخری میٹنگ میں ہونا تھا، جس کے لیے میٹنگ ہال میں موجود تمام لوگ نیوز چینل کے مالک وا یڈیٹر کے منتظر تھے۔ ایک ہفتہ قبل چینل کے ایڈیٹر کاپی۔ آر۔ او (پبلک رلیشن آفیسر) ایک
ٹوٹے گملے کا پودا
حنانے غسل خانے میں پانی سے بھری بالٹی رکھی۔ دروازہ بندکیا۔ نہانے سے پہلے حسب عادت پیرسے چپل نکاکرچند لمحے نل کو گھورا اوردوتین چپل نل پر جڑدیے۔ وہ زنگ زدہ نل جو برسوں سے بندتھا، خاموشی سے پٹتارہا۔ گذشتہ پندرہ سال سے ایسے ہی پِٹ رہاتھا۔ پندرہ سال قبل
دھورا نروان
پروفیسر صاحب پچپن سال کی عمر میں بھی بہت اسمارٹ اور خوب صورت لگ رہے تھے۔ اُن کے شاگردوں کا کہنا تھا کہ وہ بالوں کو رنگنے کے بعد چالیس سے زیادہ کے نہیں لگتے۔ انھوں نے سفید شرٹ پر لال ٹائی باندھی ہوئی تھی اور کوٹ نیلے رنگ کا تھا۔ وہ لمبے سے آئینے کے سامنے
ہریا کی حیرانیاں
مداری سڑک کے کنارے مناسب مقام دیکھ کر تماشے کی تیّاری کر رہا تھا۔ جمورا اس کی مدد میں لگا تھا۔ مداری نے ایک پوٹلی کھولی، اس میں سے کالی چادر نکال کرزمین پر بچھا دی۔ پھر وہ پوٹلی سے دوسرا سامان نکال کر جمورے کو دینے لگا۔ جمورا استاد کے بتائے مقام پر اس
میرا کمرہ
یونیورسٹی ہوسٹل کے میرے اس کمرے میں اکثر محفلیں جمتی تھیں۔ میرے چند دوست میرے کمرے میں آ جاتے تھے اور ارادی یا غیر ارادی طور پر کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہو جاتا تھا۔ یونیورسٹی اپنے ڈبیٹ کلچر کے لئے مشہور تھی۔ یہاں کا ہر ایک طالب علم اپنے
فنکار
”سوریہ باراینڈریسٹورنٹ“ میں وہ تینوں ایک گول میز کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ چوتھی کرسی خالی تھی۔ کہانی کارنے پہلوبدلا۔۔۔ ”ابھی تک نہیں آیا۔ بہت وقت لگادیا۔“ ”ہاں یار، یہ وقت کی قدرنہیں کرتا۔“ آرٹسٹ نے ایش ٹرے میں سگریٹ مسلی۔ ”یہ عام لوگ بہت سُست ہوتے
join rekhta family!
-
ادب اطفال1901
-