Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوست دشمن

اشتیاق احمد

دوست دشمن

اشتیاق احمد

MORE BYاشتیاق احمد

    ہمارے انگریزی کے ماسٹر صاحب غصے کے بہت تیز تھے۔ اتفاق سے ہم بھی انگریزی میں ہی کمزور تھے۔ ان کی عادت تھی کہ اچھے بھلے لائق لڑکوں کو بھی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر کان پکڑوا دیتے تھے۔ پھر ہماری ان سے کیوں نہ جان جاتی۔ ان کا پیریڈ آتا تو ہماری ٹانگیں لرزنے لگتیں، ہاتھ کپکپانے لگتے اور ہمارا رنگ ہلدی کی مانند زرد ہوجاتا۔ وہ بھی کلاس میں آتے ہی سب سے پہلے ہمیں ہی دیکھتے اور مسکرا کر کہتے:

    کیا بات ہے تنویر، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے، کہیں تمہیں بخار تو نہیں ہوگیا تھا رات۔‘‘

    ’’نو سر۔ نو سر۔‘‘ ہم گھبرا کر کہتے۔

    ’’ارے بھئی یہ نو سر، نو سر کیا ہوا اردو میں بات کرو، انگریزی کا پیریڈ ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر بات انگریزی میں ہی کی جائے۔‘‘

    اور اگر ہم کہیں اردو میں جواب دے دیتے تو وہ کہتے:

    ’’انگریزی میں جواب دو بھئی، پیریڈ انگریز کا ہے۔‘‘

    پھر انگریزی سننے سننانے کی باری آتی۔ وہ سب سے مشکل پیرا ہم سے سنتے، اور مضمونوں میں ہم اچھے خاصے تھے، بس ذرا انگریزی میں ہی کمزور تھے، اور ہماری یہی کمزوری ہمارے لیے مصیبت بن گئی تھی۔

    دراصل اس میں کچھ قصور ہمارے دو دوستوں انور اور خلیل کا بھی تھا۔ جب ہم گھر میں انگریزی یاد کر رہے ہوتے تو یہ دونوں آجاتے اور ہمیں کھیلنے پر مجبور کرتے۔ آخر ہم بھی بچے ہی ٹھہرے، کھیلنے کو جی چاہنے لگتا اور ہم کتابوں سے جان چھڑا کر کھیلنے لگتے، اس سے بے فکر کہ کل انگریزی کے ماسٹر صاحب سب سے مشکل پیرا ہم سے ہی سنیں گے اور سبق نہ آنے پر بید کی چھڑی سے ہمارا مزاج پوچھیں گے۔ ہم خوب کھیلتے۔

    جب خوب کھیل چکتے تو سبق کا خیال بری طرح ستانے لگتا۔ انور اور خلیل کا کیا تھا، وہ تو انگریزی میں بہت لائق تھے، انہیں تو سبق یاد کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔

    ایک دن شام کے وقت ہم نے انگریزی کی کتاب کھولی ہی تھی کہ دونوں آگئے! انور بولا:

    ’’یار ہم جب بھی آتے ہیں، تم انگریزی کا سبق ہی یاد کرتے ملتے ہو۔‘‘

    ’’اور کیا کروں۔ ایک یہی کمبخت نہیں آتی۔‘‘ ہم نے جواب دیا۔

    ’’چھوڑو بھی، آؤ کھیلیں۔‘‘ خلیل نے کہا۔

    ’’بھئی میں روز روز بید کی چھڑیاں کھا کر تھک چکا ہوں، مجھے پہلے سبق یاد کر لینے دو۔‘‘ یا پھر تم مجھے سبق یاد کرا دو۔‘‘ ہم بولے۔

    ’’ہمیں بھلا کیا آتا ہے، تم ایسا کرو کہ سبق کا جو پیرا سب سے مشکل ہے، وہ پڑھ کر دیکھ لو۔ جہاں سے نہ آئے، ہم سے پوچھ لو۔ ظاہر ہے کہ ماسٹر صاحب سب سے مشکل پیرا ہی تم سے سنیں گے۔‘‘

    ’’ترکیب تو تمہاری بھی بہت زوردار ہے۔ اچھا تو میں اس سبق کا مشکل پیرا یاد کرلیتا ہوں۔‘‘

    ہم نے جلدی جلدی سبق کا مشکل پیرا یاد کیا اور ان کے ساتھ کھیلنے لگے۔

    دوسرے دن جب ماسٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے ان کی نظر ہم پر پڑی۔ آج نہ ہم تھر تھر کانپ رہے تھے نہ ہمارا رنگ ہلدی کی طرح زرد پڑا تھا بلکہ ہم اطمینان سے بیٹھے تھے۔

    انہوں نے ہمارے اطمینان کو حیرت سے دیکھا اور بولے:

    ’’تنویر کھڑے ہوجاؤ۔‘‘

    ہم حیران ہو کر کھڑے ہوگئے۔ ’’انگریزی کا سبق سناؤ‘‘ انہوں نے کہا۔

    ’’جی: کہاں سے۔‘‘

    ’’کہاں سے کیا۔ شروع سے سناؤ۔‘‘

    اور ہماری سٹی گم ہوگئی۔ ظاہر ہے شروع سے ہمیں ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا۔ سناتے کیا خاک۔ نتیجہ بھی ظاہر تھا، بید کی چھ چھڑیاں دونوں ہاتھوں پر وصول کرنی پڑیں۔ ان پر نیل پڑ گئے۔

    اس شام ہم انور اور خلیل سے سخت ناراض تھے، یہ سب انہی دونوں کی وجہ سے تو ہوا تھا۔ نہ وہ شام کے وقت آکر ہمیں کھیلنے پر مجبور کرتے، نہ ہمیں مار کھانی پڑتی۔ ہم نے سوچ لیا کہ آج کے بعد ان دونوں کی بات پر عمل نہیں کریں گے اور ان کے ساتھ ہرگز ہرگز نہیں کھیلیں گے۔

    ہم نے انگریزی کی کتاب کھولی ہی تھی کہ وہ پھر آ دھمکے۔

    ’’اب کیوں آئے ہو، میں سبق یاد کروں گا، تمہارے ساتھ ہرگز نہیں کھیلوں گا۔‘‘ ہم نے منہ بنا کر کہا۔

    ’’معلوم ہوتا ہے، ہم سے بہت ناراض ہو، لیکن یہ تو سب ایک اتفاق تھا، ورنہ ماسٹر صاحب ہر روز تم سے مشکل پیرا ہی سنتے تھے۔ تم آج ایسا کرو۔۔۔‘‘

    انور نے کہنا چاہا۔

    ’’نہیں، میں تمہارے کسی مشورے پر عمل نہیں کروں گا۔‘‘ ہم نے کہا۔

    ’’بھئی سن تو لو انور کہنا کیا چاہتا ہے۔‘‘ خلیل نے زور دے کر کہا۔

    ’’اچھا کہو۔۔۔ کیا بات ہے۔‘‘

    ’’آج تم ایسا کرو کہ شروع کا ایک پیرا اور سبق کا مشکل پیرا یاد کرلو۔ ظاہر ہے کہ ان دو میں سے وہ اور کونسا پیرا تم سے سن سکتے ہیں۔‘‘

    تجویز معقول تھی، ہم ایک بار پھر سوچ میں پڑگئے اور آخر اس مشورے پر عمل کرنے پر تیار ہوہی گئے۔ ہم نےجلدی جلدی یہ دو پیرے یاد کیے اور ان کے ساتھ کھیلنے لگے۔

    اگلے دن ہم پھر کلاس میں اطمینان سے بیٹھے تھے۔ آج بھی ماسٹر صاحب نے ہمارے اطمینان کو حیران ہو کر دیکھا۔ آج وہ اس لیے اور بھی زیادہ حیران تھے کہ ابھی کل ہی ہمیں چھ عدد چھڑیاں بطور انعام کے ماری جاچکی تھیں۔

    انہوں نے ہمیں کھڑا ہونےکا حکم دیا۔

    ’’کیوں تنویر، آج انگریزی کا سبق یاد کیا ہے یا نہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں جناب، بالکل یاد کیا ہے۔‘‘ ہم نے اکڑ کر کہا۔

    ’’اچھا تو سبق کا آخری پیرا سناؤ۔‘‘ یہ سن کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ہم نے سمجھا شاید ہمارے کان خراب ہوگئے ہیں اور ہم نے غلط سنا ہے۔ اس لیے گھبرا کر بولے:

    ’’جی۔۔۔ آخری پیرا کہا ہے آپ نے، آخری پیرا؟‘‘

    ’’ہاں ہاں، کیا تم اونچا سنتے ہو۔ تمہارے کان خراب ہیں کیا۔‘‘

    ’’جی نہیں تو، میرے کان تو بالکل ٹھیک ہیں۔‘‘ میں نے گڑبڑا کر کہا۔ ’’تو پھر سناؤ۔‘‘

    میں خاموش کھڑا رہ گیا۔ سناتا کیا، آخری پیرے کو تو دیکھا تک نہیں تھا۔ ماسٹر صاحب سمجھ گئے۔ وہ آگے بڑھے اور انہوں نے تڑاتڑ آٹھ چھڑیاں ہماری ہتھیلیوں پر جڑ دیں۔ چھٹی ہونے کے بعد ہم خاموشی سے گھر آئے۔ اپنے ملازم کو بلا کر کہا:

    ’’میں اپنے کمرے میں بند ہو کر پڑھ رہا ہوں اگر انور اور خلیل آئیں تو کہہ دینا میں گھر میں نہیں ہوں، اور انہیں ہرگز اندر نہ آنے دینا، سمجھے۔‘‘

    ’’جی ہاں! سمجھ گیا۔‘‘

    ہم کمرہ اندر سے بند کر کے بیٹھ گئے اور انگریزی کا سبق شروع سے آخر تک اچھی طرح پڑھنے لگے۔ آج ہم نے اپنے دونوں دوستوں کے لئے اپنے گھر کے دروازے بند کر لیے تھے کیونکہ وہ ہمارے دوست نہیں تھے، وہ تو ہمارے دشمن تھے، دشمن۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے