Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اکو کی کہانی

ذکیہ مشہدی

اکو کی کہانی

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    اذلان اسی سال ساتویں کلاس میں آیا تھا۔ نئی نئی کتابیں ملیں تھیں۔ خوبصورت اور چمکدار۔ اس نے ایک کتاب میں سے کچھ پڑھنا شروع کیا۔ پھر بڑے جوش میں دادی کے پاس پہنچا۔ دادی، دادی ہم نے جاپان کے بارے میں پڑھا۔ یہ دیکھیے جاپان کا نقشہ۔ ہوں۔ دادی نے کتاب میں شوق سے نقشہ دیکھا۔ دادی کا کہنا تھا کہ بچوں کی باتوں پر توجہ دینی چاہئے۔ پھر انہوں نے اذلان کو پاس بٹھالیا۔ تمہیں جاپان کی ایک کہانی سنائیں۔

    اذلان کی آنکھیں چمک گئیں۔ جی دادی، ضرور۔

    ’’ہر ملک کی اپنی کہانیاں ہوا کرتی ہیں۔ جب تم چھوٹے تھے تو تمہیں کوے اور چڑیا کی سنائی تھی۔ ’’یاد ہے دادی۔‘‘ اذلان ہنسنے لگا۔ یہ کہانی ہندوستان کی تھی۔ ہمارے ملک کی۔ ایسے ہی جاپان کی کہانیاں ہیں۔ ایک کہانی ’اکو‘ کی ہے۔‘‘

    ’’اکو کون؟ کوئی چڑیا؟‘‘ اذلان بے صبری سے بولا۔

    نہیں بھائی۔ اکو ایک لڑکا تھا۔ چھوٹا لڑکا۔ اب چپ چاپ سنو۔

    جاپان کے زیادہ تر لوگ بدھ مذہب کو مانتے ہیں۔ اکو دوسرے لڑکوں کے ساتھ بدھ مذہب کی تعلیم لے رہا تھا۔ وہ گروجی کے یہاں رہ کر پڑھتا تھا۔

    ’’جیسے ہمارے اسکول میں کچھ لڑکے ہاسٹل میں رہ کر پڑھتے ہیں۔‘‘ اذلان نے کہا۔

    دادی اس کی سوجھ بوجھ سے بہت خوش ہوئیں۔ بالکل ٹھیک سمجھے۔

    ایک دن اکو رات کو گروجی کے کمرے کی طرف سے گزرا۔ اس نے دیکھا کہ گروجی چاٹ چاٹ کر کچھ کھا رہے ہیں۔ ان کے سامنے ایک چھوٹا سا کالے رنگ کا گھڑا رکھا ہوا تھا۔ وہ اس گھڑے میں سے کچھ نکال کر چاٹ رہے تھے۔ تم گھڑا جانتے ہو اذلان؟

    ’’جی دادی۔ ایک بار ہم نے مٹی کی صراحی خریدی تھی۔ وہیں گھڑے بھی تھے۔ چھوٹے بڑے۔ سب طرح کے۔ ان میں پانی ٹھنڈا رہتا ہے۔‘‘

    شاباش۔ تو گروجی کے سامنے بالکل چھوٹا گھڑا تھا۔ اکو نے جاکر اور بچوں کو یہ بات بتائی۔ ضرور شہد ہوگا۔ گروجی شہد کھا رہے تھے۔ اکو نے کہا۔ ایک بچہ بولا۔ شہد تو بچوں کو بھی ملنا چاہیے۔ یہاں جو کچھ آتا ہے اس میں سب کا حصہ ہوتا ہے۔ سب بچے گروجی کے کمرے میں گھس گئے۔

    اکو نے کہا ’’گروجی آپ کہتے ہیں کہ اچھی چیز سب کو مل بانٹ کر کھانی چاہیے۔ پھر آپ یہ شہد اکیلے کیوں کھا رہے ہیں؟‘‘

    گروجی گھبرا گئے۔ ’’بولے یہ شہد نہیں، دوا ہے۔ کسی بچے نے اسے کھایا تو مرجائے گا۔‘‘ بچے واپس ہوگئے۔ رات کافی ہوگئی تھی۔ جاکر سوگئے۔

    دوسرے دن صبح گروجی کہیں کام سے چلے گئے۔ اکو نے جاکر گھڑا کھول کر سونگھا۔ انگلی پر لے کر دیکھا۔ وہ شہد ہی تھا۔ اس نے بچوں کو بلا کر کہا، دیکھو یہ شہد ہی ہے، دوا نہیں ہے۔ اس نے چکھ کر دکھایا۔ پھر تو سبھی بچوں نے تھوڑا تھوڑا شہد کھایا۔ میٹھا، مزےدار شہد۔ کسی بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ گھڑا آدھا خالی ہوگیا۔ لیکن پھر بچے بہت ڈرے۔ گروجی کو کیا جواب دیں گے۔ یہ تو چوری ہے۔ اکو نے کہا ڈرو مت۔ ہم کچھ تدبیر کرتے ہیں۔

    گروجی واپس آئے تو اکو نے انہیں دروازے پر ہی روک لیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا۔ ’’گروجی مجھے معاف کردیجئے۔ آپ کی خوبصورت لال رنگ والی چینی مٹی کی پلیٹ میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئی۔‘‘

    ’’ارے یہ تم نے کیا کیا۔ یہ تو مجھے بہت پسند تھی۔ گروجی نے ناراض ہو کر کہا۔ اور وہ بس ایک ہی پلیٹ تھی۔ ویسی دوسری پلیٹ ہے بھی نہیں۔‘‘

    ’’جی گروجی۔ اسی لیے مجھے اتنا افسوس ہوا کہ میں نے خودکشی کرنے کی سوچی اور گھڑے سے لے کر دواچاٹ لی۔ آپ نے کہا تھا ناکہ اسے کھانے سے بچے مر جاتے ہیں۔ تو میرے ساتھیوں کو لگا کہ وہ میرے مرنے سے بہت اداس ہوجائیں گے۔ میرے ساتھ انہوں نے بھی مرجانا چاہا۔ اس لیے سب نے دو دوا چاٹ چاٹ کر خوب کھائی۔ بڑی میٹھی دوا تھی۔ گھڑا آدھا ہی رہ گیا۔ بلکہ آدھے سے بھی کم۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی تک ہم میں سے کوئی مرا نہیں۔‘‘

    پوری بات سن کر گروجی اکو کی چالاکی سمجھ گئے۔ دیکھا تو اکو بھی مسکرا رہا تھا۔ وہ زور سے ہنس پڑے۔ بولے، ’’مجھے معاف کردو اکو۔ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ وہ دوا نہیں شہد ہے۔ تم لوگ کبھی مروگے نہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں اب کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ تم لوگ بھی کبھی جھوٹ مت بولنا۔‘‘

    اکو اور سب بچوں نے ہاتھ جوڑ دیے۔ ’’گروجی آپ کی پلیٹ نہیں ٹوٹی ہے۔ جھوٹ سنبھالنے کے لیے میں نے جھوٹ بولا۔ اب ہم میں سے کوئی بھی کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔‘‘

    ’’اذلان تم بھی کبھی جھوٹ مت بولنا۔‘‘ دادی نے کہانی ختم کر کے کہا۔

    ایک جھوٹ بول کر اسے سنبھالنے کے لیے دوسرا جھوٹ اور پھر تیسرا جھوٹ۔ آخر میں پول کھل جاتی ہے جیسے گروجی کی کھل گئ۔ اور اکو کی بھی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے دادی۔ کوشش کریں گے۔‘‘ اذلان اپنے ٹوٹے دانتوں والی ہنسی ہنستے ہوئے بھاگ گیا۔ لیکن پھر واپس آکر کہا ’’دادی ایسی کہانی تو کہیں کی بھی ہوسکتی ہے۔ جاپان کی ہی کیوں؟‘‘ یہ بڑا اچھا سوال تھا۔ ایک عقلمند بچے کا سوال۔ دادی بہت خوش ہوئیں۔

    بیٹا۔ انہوں نے کہا۔ انسان ہر جگہ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی کہانیاں بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ جاپان میں بھی بچے تمہارے جیسے ہوتے ہیں۔ ان کے بھی دانت ٹوٹتے ہیں۔ وہ شرارت بھی کرتے ہیں، پڑھتے بھی ہیں۔ ان کی بھی نانی دادی ہوتی ہیں۔ وہ بچوں کی کہانیاں سناتی ہیں۔‘‘

    اذلان کو اتنا صبر کہا۔ وہ پھر بھاگ نکلا۔ کہانی تو سن ہی لی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے