Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھانے میں تبدیلی

اعظم طارق کوہستانی

کھانے میں تبدیلی

اعظم طارق کوہستانی

MORE BYاعظم طارق کوہستانی

    طفیل میاں کو چڑیا گھر میں جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے عرصہ ہو گیا تھا۔ اب تو اس کے بال بھی سفید ہو چکے تھے۔ اسے جانوروں کی دیکھ بھال کرکے حقیقی مسرت ہوتی تھی۔ ایک صبح جب وہ جانوروں کو کھانا دینے گیا تو اس کے ساتھ دلچسپ واقعات پیش آئے۔ اس نے حسب ِمعمول گوشت کا ایک خوب صورت ٹکڑا شیر کے پنجرے میں ڈالا۔

    ’’میں گوشت کھاتے کھاتے تھک گیا ہوں۔‘‘ شیر نے گوشت کو دیکھ کر منھ بنایا۔

    ’’مجھے اپنے منھ کے ذائقے کی تبدیلی کے لیے مچھلی چاہیے۔‘‘

    طفیل میاں کے لیے شیر کا رویہ حیرت انگیز تھا۔ وہ واپس چڑیا گھر کے باورچی خانے میں گیا اور ایک ڈبے میں مچھلی لا کر شیر کوپیش کردی۔

    طفیل میاں کے قریب کھڑے ہوئے پینگوئن نے یہ منظر دیکھ کر طفیل میاں سے کہا۔

    ’’کیا ہمیں ہماری مچھلی ملے گی؟‘‘

    مچھلیاں کھانے والے پینگوئن کی بات سن کر طفیل میاں نے کہا۔ ’’میں معذرت خواہ ہوں۔ شیر نے اصرار کیا کہ آج وہ مچھلی کھائے گا۔ اب ہمیں مزید مچھلیوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘

    ’’مجھے گھاس کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ پینگوئن نے کہا۔ ’’کیا تم ہاتھی سے یہ کہہ دو گے کہ گھاس پینگوئن کو چاہیے۔‘‘

    ’’میں ہاتھی سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔‘‘ طفیل میاں نے کہا۔

    ’’ہاتھی نے طفیل میاں کی بات سن کر کہا کہ اگر اسے توتے کے بیچ لا کر دے دیے جائیں تو وہ گھاس پینگوئن کو دینے کے متعلق سوچ سکتا ہے۔‘‘

    طفیل میاں نے اسے کھانے کے بیج دلانے کے وعدے پر گھاس پینگوئن کو دے دی۔ پینگوئن کو گھاس دینے کے بعد وہ توتے کے پاس پہنچا۔

    چمکتے پروں والے توتے نے کہا: ’’اگر ہاتھی میرے بیج کھا سکتا ہے تو میں بھی شیر کا گوشت کھا سکتا ہوں، اس لیے شیر کا گوشت مجھے دیا جائے۔‘‘

    ٭

    شیر کا گوشت توتے کو دینے کے بعد طفیل میاں بری طرح تھک چکے تھے۔ وہ ابھی آرام کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ اسے شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دی۔ پانی کے تالاب کی جانب سے بھی پینگوئن کے شور مچانے کی آواز آنے لگی۔ ابھی یہ شور تھما نہیں تھا کہ ہاتھی کے زوردار چنگھاڑنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ سب جانور اپنی پوری آواز میں چیخیں مار رہے تھے۔

    ’’میں آرہا ہوں۔‘‘ طفیل میاں نے کہا اور بھاگتا ہوا شیر کے پنجرے کے پاس آیا۔

    ’’اس مچھلی سے عجیب سی بو آرہی ہے۔‘‘ شیر نے دھاڑتے ہوئے کہا۔

    ’’اسے دور پھینک دو اور مجھے میرا گوشت واپس لاؤ۔‘‘

    طفیل میاں نے شیر سے مچھلی پکڑ کر بھاگتے ہوئے پانی کے تالاب میں ڈال دی۔

    ’’میں کب سے گھاس کو کھانے کی کوشش کررہا ہوں۔‘‘ پینگوئن نے بے بسی سے کہا: ’’جیسے ہی میں اسے کھانے لگتا ہوں یہ اڑنے لگتی ہے۔‘‘

    طفیل میاں نے جلدی سے گھاس لے جا کر ہاتھی کو پکڑا دی۔ ہاتھی تو جیسے تیار بیٹھا تھا۔

    ’’ان بیج کو لے جاؤں یہاں سے، ان سے میرا پیٹ بھرنے والا نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تم نے میری گھاس مجھے لوٹا دی۔‘‘

    اب طفیل میاں کھانے کے بیچ لے کر توتے کے پاس گئے۔ ’’اس قدر سخت گوشت بھلا کون کھا سکتا ہے۔‘‘ توتے نے طفیل میاں کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر کہا۔ ’’میں اپنے بیج کھاؤں گا۔‘‘

    طفیل میاں نے گوشت لے جا کر شیر کے حوالے کیا۔

    طفیل میاں مسلسل مسکراتے جا رہے تھے۔ یہ صبح اس کی بہت مصروف گزری لیکن انھیں یقین تھا کہ جانور کھانے کے متعلق اب اسے تنگ نہیں کریں گے۔

    کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہر جانور کے لیے اس کے جسم، منھ اور دانتوں کے لحاظ سے خوراک بنائی ہے اور جو بھی جانور غلط کھانا کھائے گا وہ یا تو بیمار ہوجائے گا یا پھر کھا ہی نہیں پائے گا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے