رنگا بھالو
رنگا بھالو اپنی سستی کی وجہ سے جنگل بھر میں نالائق اور نکما مشہور تھا۔ جس طرح انسانوں میں کوئی شخص سست ہوجائے۔ کام نہ کرے بس اوروں سے اُمید لگا کر کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرے تو ایسے شخص کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح جنگل کے قاعدے قانون میں یہ بات درج تھی کہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کا کھانا نہیں چرائے گا بلکہ خود محنت کرے گا۔
لیکن اب بھلا رنگا کو یہ بات کون سمجھاتا؟ اسے جس نے بھی سمجھایا، وہ سمجھا سمجھا کر تھک گیا لیکن رنگا تو اپنی موج مستی میں لگا رہتا، کبھی کسی کی مچھلیاں چُرالیں اور کبھی شہد کی مکھیوں کو بھگا کر ان کا شہد ہڑپ کرلیا۔
اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے وہ کئی بار پٹ بھی چکا تھا، لیکن رنگا کو باز آنا تھانہ باز آیا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، سردیوں کی ایک رات بھوک سے رنگا کا بُرا حال تھا، وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھا سردی سے کانپ رہا تھا۔ سردی اور بھوک نے سمجھو اسے پاگل سا کردیا تھا۔ اچانک اسے درخت پر بھن بھن کی آوازیں سنائی دیں۔ رنگا نے جو اوپر دیکھا تو اسے شہد کا چھتا نظر آیا۔ اب تو رنگا کے منھ میں پانی بھر آیا، اس نے چھلانگ لگائی اور درخت پر چڑھ گیا۔
شہد کی مکھیوں نے جب بھالو کو اپنے پاس دیکھا تو وہ سب ڈر گئیں۔
شہد کی مکھیوں کی ایک رانی ہوتی ہے، تمام مکھیاں اپنی رانی کی بات مانتی ہیں۔
رانی نے بھالو سے کہا کہ وہ سارا شہد نہ لے جائے بلکہ جتنی اس کی بھوک ہے، صرف اتنا شہد لے۔
رنگا چاہتا تو وہ شہد کا سارا چھتا لے جاتا لیکن اس وقت وہ مکھیوں سے لڑنے کے موڈ میں نہیں تھا، ویسے بھی اسے معلوم تھا کہ شہد کی مکھیوں کا ڈنگ بہت خطرناک ہوتا ہے۔
رنگا نے چالاکی سے کہا کہ ایک شرط پر وہ ایسا کرے گا جب بھی اسے بھوک لگے گی، اسے شہد دیا جائے گا۔
رانی نے اس وقت چھتا بچانے کے لیے ہامی بھرلی لیکن بعد میں رانی کو اندازہ ہوا کہ بھالو اُن کی محنت مفت میں ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔
کچھ دن تک یونہی ہوتا رہا۔ رنگا نے کہیں سے ایک بڑا مرتبان چرالیا تھا۔ شہد کی مکھیاں روزانہ شہد بالٹی بھر بھر کر مرتبان میں ڈالتی رہتیں، رنگا مزے مزے سے مفت کا شہد کھاتا رہتا۔ رنگا کو اس بدمعاشی میں مزہ آنے لگا۔ جب کبھی شہد کم ملتا یا دیر سے ملتا، رنگا بھالو زور زور سے چیخیں مار کر درخت کو ہلا کر رانی کو ڈراتا۔
رانی نے بھالو کی اس بدمعاشی سے تنگ آکر ایک دن تمام مکھیوں کو جمع کیا اور کہا:
’’بھالو کی بدمعاشی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ وہ ہم سے زبردستی ہمارا کھانا لے جاتا ہے۔ سارا دن کاہلوں کی طرح درخت پر پڑا رہتا ہے۔ جو جانور ایسا کرتا ہے وہ جنگل والوں کے لیے بد نما داغ ہے۔ ایسے بھالو کو سبق سکھانا چاہیے۔‘‘
مکھیوں نے بھن بھن کی آوازیں نکال کر رانی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
فیصلہ ہوا کہ دوپہر میں بھالو پر ایک ساتھ حملہ کیا جائے گا۔ رانی نے اس موقع پر دیگر جانوروں سے رابطہ کرکے مدد کی درخواست کی۔ بندر بھی بھالو سے تنگ تھے، بھالو ان کے کیلے کھا جاتا تھا، بندروں نے بھی رانی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
دوپہر کے وقت رنگا شہد آنے کا انتظار کررہا تھا لیکن اب تک ایک مکھی بھی شہد لے کر نہیں آئی تھی۔ رنگا کو غصہ آنے لگا۔ اسے غصہ بھی بھلا کس بات پر آرہا تھا۔ غلط طریقے سے کسی کا کھانا لینا کتنی بُری بات ہے لیکن رنگا تو اس کھانے کو اپنا حق سمجھ رہا تھا۔
رنگا نے غصے سے دھاڑ لگائی جیسے آج وہ درخت ہی گرا دے گا، اچانک اسے ایک مکھی بالٹی سمیت آتی دکھائی دی۔ رنگا اسے بُرا بھلا کہنے لگا۔
’’میں تم سب کو رانی سمیت مار ڈالوں گا۔‘‘
’’رنگا اب بہت ہوچکا۔۔۔ تمھیں اس بدمعاشی سے باز آنا ہوگا۔‘‘ رانی کی آواز آئی۔
’’تمھاری یہ جرأت مجھے سمجھائو، میں بتاتا ہوں تمھیں، کہاں ہو تم سامنے آئو ڈرپوک رانی!‘‘
ابھی اس نے یہ کہا ہی تھا کہ اسے بہت ساری شہد کی مکھیوں کا شور سنائی دیا۔
’’اف یہ کیا کرنے لگی ہیں؟‘‘
رنگا پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کا پیر پھسلا اور وہ درخت سے نیچے گر گیا۔
شہد کی مکھیوں نے اس پر حملہ کردیا تھا۔
’’اُف۔۔۔ اوئی۔۔۔ میں مرگیا۔۔۔ آئندہ نہیں کروں گا۔۔۔ اُف بچائو کوئی مجھے۔‘‘
لیکن اب کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ دوسری طرف بندروں نے بھی ناریل توڑ توڑ کر رنگابھالو کو مارنے شروع کردیے۔ دو ناریل ہی بھالو کو لگے تھے کہ اس کا سر پھٹ گیا۔
اب بھالو نے جو دوڑ لگائی تو دوبارہ جنگل کا رُخ نہیں کیا۔
پتا نہیں وہ کہاں گیا، کوئی کہتا ہے کہ اس کے سر سے خون نکلا تو اس کی وجہ سے وہ مرگیا۔ کوئی کہتا تھا کہ اُسے انسان چڑیا گھر لے گئے ہیں۔ کوئی کہتا کہ وہ پہاڑوں میں رہنے لگا ہے لیکن حقیقت کیا ہے، آج تک صحیح سے معلوم نہیں ہوسکا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.