اختر الایمان کا تعارف
اختر الایمان اردو نظم کے نئے معیارات متعین کرنے والے منفرد شاعر ہیں جن کی نظمیں اردو ادب کے سرمایہ کا لاثانی حصہ ہیں۔انھوں نے اردو شاعری کی مقبول عام صنف،غزل سے کنارہ کرتے ہوئے صرف نظم کو اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا اور اک ایسی زبان میں گفتگو کی جو شروع میں،اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والےتغزل اور ترنم آشنا کانوں کے لئے کھردری اور غیر شاعرانہ تھی لیکن وقت کے ساتھ یہی زبان ان کے بعد آنے والوں کے لئے نئے موضوعات اور اظہار بیان کی نئی جہات تلاش کرنے کا حوالہ بنی۔ان کی شاعری قاری کو نہ تو چونکاتی ہے اور نہ فوری طور پر اپنی گرفت میں لیتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ،غیر محسوس طریقہ پر اپنا جادو جگاتی ہے اور دیرپا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ان کی فکر موہوم یا کیف آور غنائیت کے دائرہ میں محصور نہیں ہو سکتی تھی اسی لئے انھوں نے وہ پیرایہ بیان وضع کیا جو زیادہ سے زیادہ حسی،جذباتی،اخلاقی اور معاشرتی تجربات کا احاطہ کر سکے۔یہی وجہ ہے کہ موضوعات،احساسات اور تجربات کا جو تنوع اختر الایمان کی شاعری میں ملتا ہے وہ ان کے دوسرے ہمعصر شاعروں کے یہان مفقود ہے۔ ان کی ہر نظم زبان،لفظیات،لب و لہجہ اور آہنگ کا اک نیا نظام پیش کرتی ہے۔اختر الایمان کے لئے شاعری اک ذہنی ترنگ یا تفریحی مشغلہ نہیں تھا۔اپنے مجموعہ 'یادیں' کے پیش لفظ میں انھوں نے لکھا " شاعری میرے نزدیک کیا ہے؟ اگر میں اس بات کو ایک لفظ میں واضح کرنا چاہوں تو مذہب کا لفظ استعمال کروں گا۔کوئی بھی کام ،جسے انسان دیانت داری سے کرنا چاہے،اس میں جب تک وہ لگن اور تقدس نہ ہو جو صرف مذہب سے وابستہ ہے، اس کام کے لئے اچھا ہونے میں ہمیشہ شبہ کی گنجائش رہے گی "شاعری اختر الایمان کے لئے عبادت تھی اور انھوں نے شاعری کی نماز کبھی با جماعت نہیں پڑھی۔جن شاعروں کے یہاں ان کو عبادت سمجھ کر شاعری کرنے کا وصف نہیں ملا ،ان کو وہ شاعر نہیں بلکہ محض بیت ساز سمجھتے تھے۔مجاز،مخدوم،فیض اور فراق کو وہ کسی حد تک شاعر مان لیتے تھے لیکن باقی دوسروں کی شاعری ان کو تخلیقی شاعری سے باہر کی چیز نظر آتی تھی۔
اختر الایمان نے زندگی میں بہت کچھ دیکھا اور بہت کچھ جھیلا۔وہ 12 نومبر 1915 کو مغربی اتر پردیش کے ضلع بجنور کی اک چھوٹی سی بستی قلعہ پتھر گڑھ میں اک مفلوک الحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حافظ فتح محمد تھا جو پیشہ سے امام تھے اور مسجد میں بچوں کو پڑھایا بھی کرتے تھے۔اس گھرانے میں دو وقت کی روٹی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ تھی۔والد کی رنگین مزاجی کی وجہ سے ماں باپ کے تعلقات کشیدہ رہتے تھے اور والدہ اکثر جھگڑا کر کے اپنے مائکہ چلی جاتی تھیں اور اختر تعلیم کے خیال سے باپ کے پاس رہتے۔والد نے ان کو قرآن حفظ کرنے پر لگا دیا لیکن جلد ہی ان کی چچی جو خالہ بھی تھیں ان کو دہلی لے گئیں اور اپنے پاس رکھنے کےبجائے ان کو اک یتیم خانہ موئید الاسلام (موجودہ بچوں کا گھر واقع دریا گنج) میں داخل کرا دیا۔یہاں اختر الایمان نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔موئید الاسلام کے اک استاد عبدالواحد نے اختر الایمان کولکھنے لکھانے اور مقرری کی طرف توجہ دلائی اور انھیں احساس دلایا کہ ان میں ادیب و شاعر بننے کے بہت امکانات ہیں۔ان کی حوصلہ افزائی سے اختر نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی۔یہ اسکول صرف آٹھویں جماعت تک تھا یہاں سے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد انھوں نے فتحپوری اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں ان کے حالات اور تعلیم کا شوق دیکھتے ہوئے ان کی فیس معاف کر دی گئی اور وہ چچا کا مکان چھوڑ کر الگ رہنے لگے اورٹیوشن سے اپنی گزر بسر کرنے لگے۔ 1937 میں انھوں نے اسی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔
میٹرک کے بعد اخترا الایمان نے اینگلو عربک کالج (موجودہ ذاکر حسین کالج) میں داخلہ لیا۔کالج میں وہ اک آتش نوا مقرر اور اپنی عامیانہ رومانی نظموں کی بدولت لڑکیوں کے پسندیدہ شاعر کی حیثیت سے جانے جانے لگے۔ان کے بے تکلف دوست ان کو بلیک جاپان اختر الایمان کہتے تھے۔وہ غیر تدریسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سکریٹری تھے۔ان کی ایک آواز پر کالج میں ہڑتال ہو جاتی تھی۔اسی زمانہ میں ان کی ماں نے،ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادی اک ان پڑھ لڑکی سے کر دی جو طلاق پر ختم ہوئی۔ ٹیوشن میں ان کے پاس لڑکیاں بھی پڑھنے آتی تھیں ان میں اک شادی شدہ لڑکی قیصر بھی تھی جس پر اختر فریفتہ ہو گئے اور اپنے بڑھاپے میں اس کی یاد میں اپنی مشہور نظم "ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر" لکھی۔یہ ان کا آخری عشق نہیں تھا وہ بہت جلد کسی نہ کسی کے عشق میں گرفتار ہو جاتے تھے اور ٹوٹ کر محبت کرنے لگتے تھے۔اپنی کم روئی اور ناداری کے سبب ان میں خود اعتمادی بالکل نہیں تھی وہ تقریبا" ہر قریب سے نظر آنے والی لڑکی کو پسند کر لیتے تھےاور پھر خود ہی اس سے مایوس ہو جاتے تھے۔وہ جس سے محبت کرتے شدت سے محبت کرتے یہ محبتیں ان کے لئے کوئی کھیل تماشہ نہیں تھیں وہ گہری اور شدید ہوتی تھیں لیکن دوسری طرف سے بے توجہی ان کو محبوب بدلنے پر مجبور کر دیتی تھی۔پھر ان لڑکیوں کے ناقابل حصول ہونے کا احساس ان کو کھا گیا۔اور کیفیت ماورائی خیالوں میں تبدیل ہو گئی۔انھوں نے خود کو سمجھا لیا کہ ان کی مثالی محبوبہ اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہے اب وہ اک خیالی محبوبہ کے تصور میں مگن ہو گئے جس کاا اک نام "زلفیہ" بھی تجویز کر لیا اور اپنا دوسرا مجموعہ کلام اسی کے نام معنون کیا۔یہ زلفیہ اس دنیا کی مخلوق نہیں تھی بلکہ اک تصور،اک ہیولیٰ اور ایک کیفیت تھی جس کے تھوڑے بہت مظاہر جس میں نظر آئے وہ اسی کی پرستش کرنے لگتے۔اپنی باقی زندگی میں،انسانی،سماجی،اخلاقی غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں کی اقدار سے وہ اسی زلفیہ کے حوالہ سے رو برو ہوتے رہے اور وہی ان کی شاعری کی فکری،حسی اور جذباتی اساس بن گئی۔اینگلو عربک کالج سے بی اے کرنے کے بعد ان کو وہاں ایم اے میں داخلہ نہیں ملا کیونکہ ان کو کالج کی ڈسپلن کے لئے خطرہ سمجھا جانے لگا تھا۔۔۔۔کچھ دنوں بیکار رہنے کے بعد وہ ساغر نظامی کی خواہش پر 1941 میں "ایشیا" کی ادارت کے لئے میرٹھ چلے گئے جہاں ان کی تنخواہ 40 روپے ماہوار تھی۔میرٹھ میں اختر کا دل نہیں لگا اور وہ چار پانچ ماہ بعد دہلی واپس آ کر سپلائی کے محکمہ میں کلرک بن گئے۔لیکن ایک ہی ماہ بعد 1942 میں ان کا تقرر دہلی ریڈیو اسٹیشن میں ہو گیا۔یہ ملازمت ریڈیو اسٹیشن کی داخلی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی اور ان کو برطرف کر دیا گیا جس میں مبینہ طور پر ن م راشد کا ہاتھ تھا۔۔اس کے بعد اخترا الایمان نے کسی طرح علی گڑھ جا کر ایم اے اردو میں داخلہ لیا لیکن ناداری کی وجہ سے صرف پہلا سال مکمل کر سکے اور روزی کی تلاش میں پونہ جاکر شالیمار اسٹوڈیو میں بطور کہانی نویس اور مکالمہ نگار ملازمت کر لی تقریبا دو سال وہاں گزارنے کے بعد وہ بمبئی چلے گئے اور فلموں میں مکالمے لکھنے لگے۔1947 میں انھوں نے سلطانہ منصوری سے شادی کی یہ محبت کی شادی نہیں تھی لیکن پوری طرح کامیاب رہی۔
بمبئی پہنچ کر اخترا الایمان کی مالی حالت میں بہتری آئی جس میں ان کی انتھک محنت کا بڑا دخل تھا اور جس کا سبق ان کو شاعر مزدور احسان دانش نے دیا تھا اور کہا تھا "اختر صاحب دیکھو شاعری وائری تو اپنے حسابوں سب چلا لیتے ہیں روٹی مزدوری سے ملتی ہے۔مزدوری کی عادت ڈالو عزیزم!"بمبئی کی فلم نگری میں آکر اختر الایمان کو دنیا کو دیکھنے اور انسان کو ہر انداز میں سمجھنے کا موقع ملا۔یہاں کی دھوکے بازیاں مکاریاں جھوٹ کینہ کپٹ کا انھوں نے مطالعہ کیا۔ان کا کہنا تھا کی فلمی دنیا سے مجھے بصیرت ملی۔
اختر الایمان اپنی شاعری کے بہترین مفسر اور نقاد خود تھے۔وہ اپنی کتابوں کے دیباچے خود لکھتے تھے اور قاری کی رہنمائی کرتے تھے کہ ان کو کس طرح پڑھا جائے۔مثلا"یہ شاعری مشین میں نہیں ڈھلی،اک ایسے انسان کے ذہن کی تخلیق ہے جو دن رات بدلتی ہوئی سماجی معاشی اور اخلاقی اقدار سے دوچار ہوتا ہے۔جہاں انسان زندگی اور سماج کے ساتھ بہت سے سمجھوتے کرنے پر مجبور ہے جنھیں وہ پسند نہیں کرتا۔سمجھوتے اس لئے کرتا ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں اور ان کے خلاف آواز اس لئے اٹھاتا ہے کہ اس کے پاس ضمیر نام کی اک چیز ہے۔" اور یہ تنہا اختر الایمان کے ضمیر کی آواز نہیں بلکہ ان کے عہد کے ہر حساس شخص کے ضمیر کی آواز ہے۔ان کی شاعری اسی با ضمیر آدمی کے محسوسات کی عکاسی ہے جس میں جارحانہ ردعمل کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ جذبہ کی نہیں احساس کی آواز ہے۔
اختر الایمان اک صلح جو انسان تھے لیکن لفظ کے تقدس پر کوئی آنچ آنا ان کو گوارہ نہیں تھا۔ہمعصر شاعروں کے بارے میں ان کی جو رائے تھی اس میں کسی خود پسندی کا نہیں بلکہ لفظ کی حرمت کی پاسداری کو دخل تھا۔ اپنی تحریر کے حوالہ سے وہ بہت سخت گیر تھے۔ایک بار وہ کسی فلم کے مکالمے لکھ رہے تھے جس کے ہیرو دلیپ کمار تھے۔ انھوں نے کسی مکالمے میں تبدیلی کرنے کے لئے اخترالایمان کا لکھا ہوا مکالمہ کاٹ کر اپنے قلم سے کچھ لکھنا چاہا۔اختر الایمان نے انہیں سختی سے روک دیاکہ وہ ان کی تحریر کو نہ کاٹیں اپنا اعتراض زبانی بتائیں اگر بدلنا ہو گا تو وہ خود اپنے قلم سے بدلیں گے۔اسی طرح کا اک اور قصہ ہے جب اخترا لایمان باقاعدگی سے صبح چہل قدمی کے لئے جایا کرتے تھے۔ایک روز وہ چہل قدمی کر رہے تھے کہ سامنے سے جاوید اختر کہیں اپنی رات گزار کر واپس آ رہے تھے۔وہ اختر الایمان کو دیکھ کر بولے "اختر بھائی آپ کا یہ مصرع اٹھاؤ ہاتھ کہ دست دعا بلند کریں غلط ہے (یعنی جب ہاتھ اٹھانے کی بات کہہ دی گئی ہے تو دست دعا بلند کرنے کا کیا مطلب؟) اختر الایمان کا مختصر جواب تھا " تم اردو زبان کے محاورے سے واقف نہیں"جاوید گرم ہو گئے کہ میں جانثار اختر کا بیٹا اور مجاز کا بھانجہ اردو کے محاورے سے واقف نہیں !اس پر اخترالایمان نے کچھ ایسا کہا جو راوی کے بقول قابل تحریر نہیں۔خیر جاوید بات کو پی گئے اور ان سے کہا کہ گھر چلیے چائے پی کر جائیے گا۔لیکن اخترالایمان نے ترش روئی سے کہا"جاو ٔبھائی میری سیر کیوں خراب کرتے ہو"یہاں راقم الحروف کو وہ واقعہ یاد آتا ہے جو وارث کرمانی نے گھومتی ندی میں لکھا ہے کہ وہ جس زمانہ میں علی گڑھ یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر تھے،غالب کے شعر:
وصال و ہجر جداگانہ لذتے دارد
ہزار بار برو صد ہزار بار بیا
پر اعتراض کرتے ہوئے اک طالبہ نے کہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ہزار بار جا کر صد ہزار بار واپس آئے اور اس پر وارث کرمانی نے اس کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ادب کی بجائے ریاضی کے کورس میں داخلہ لے لے۔غالب کے لاجواب شعر کی جس طرح اس لڑکی نے مٹی پلید کی وہ تو قابل معافی تھی کہ وہ طالب علم اور ناپختہ ادبی شعور کی مالک تھی لیکن کرمانی صاحب شعر کی وضاحت نہ کر پانے اور لڑکی کو ریاضی کے کورس میں داخلہ لینے کا مشورہ دینے کے لئے ضرور اس قابل تھے کہ ان کی کلاس لی جائے۔
ممبئی میں اپنی 50 سالہ فلمی سرگرمی کے دوران میں اخترالایمان نے سو(100)سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے جن میں نغمہ،رفتار،زندگی اور طوفان،مغل اعظم،قانون،وقت،ہمراز،داغ،آدمی،مجرم،میرا سایہ،آدمی اور انسان، چاندی سونا، دھرم پترا ورا پرادھ جیسی کامیاب فلمیں شامل تھیں وقت اور دھرم پتر کے لئے ان کو بہترین مکالمہ نویس کے فلم فیر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ان کی نظموں کے دس مجموعے شائع ہوئے جن میں گرداب سب رنگ،تاریک سیارہ،آب جو،یادیں، بنت لمحات،نیا آہنگ،سروساماں،زمین زمین اور زمستان سرد مہری کا شامل ہیں۔یادیں کی اشاعت پر ان کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا، بنت لمحات پر یو پی اردو اکیڈمی اور میر اکیڈمی نے ان کو انعام دیا نیا آہنگ کے لئے مہاراشٹر اردو اکیڈمی نے ان کو ایوارڈ دیااور سروساماں کے لئے مدھیہ پردیش حکومت نے انھیں اقبال سمان سے نوازا۔اسی کتاب پر ان کو دہلی اردو اکیڈمی اور غالب انسٹی ٹیوٹ نے بھی انعامات دئے۔تین باران کوگیان پیٹھ ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا۔
9 مارچ 1996 کو عارضہ قلب میں ان کا انتقال ہو گیا اور اسی کے ساتھ اردو نظم اپنے اک عظیم فرزند سے محروم ہو گئی۔ اخترالایمان نے اپنے محسوسات کے بیان میں شعری لسانیات کے تمام موجود لوازم کوآزمانے کی بجائے دوٹوک اور حقیقی زبان کا استعمال کر کےدکھا دیا کہ شعر گوئی کا اک انداز یہ بھی ہے ان کی شاعری قاری سے اپنی قرأتوں کی ہی نہیں اپنی سماعتوں کی بھی تربیت کا تقاضاکرتی ہے۔
موضوعات
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n92034947