Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ali Abbas Husaini's Photo'

علی عباس حسینی

1897 - 1969 | لکھنؤ, انڈیا

معروف افسانہ نگار،ڈرامہ نویس اور نقاد۔اپنے افسانے ’میلہ گھومنی‘ کے لیے مشہور

معروف افسانہ نگار،ڈرامہ نویس اور نقاد۔اپنے افسانے ’میلہ گھومنی‘ کے لیے مشہور

علی عباس حسینی کے افسانے

241
Favorite

باعتبار

آم کا پھل

نچلے طبقے کی نفسیات کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ بدلیا ذات کی چمارن ہے جو شادی کے تین ماہ بعد ہی بیوہ ہو گئی ہے۔ اس کی ساس اور نندیں بجائے اس کے کہ اس کی دلجوئی کرتیں اس کو ڈائن وغیرہ کہہ کر گھر سے نکال کر بیلوں کے باڑے میں رہنے کے لئے مجبور کر دیتی ہیں۔ چھوٹے سے گاؤں میں اس واقعہ کی خبر ہر شخص کو ہو جاتی ہے اسی لئے ہر نوجوان بدلیا کے لئے ہمدردی کے جذبات سے لبریز نظر آتا ہے اور رات کے اندھیرے میں اس کے کھانے کے لئے چھوٹی موٹی چیزیں دے جاتا ہے۔ اسی ضمن میں گاؤں کا بدمعاش چندی، جو ایک دن پہلے ہی ایک سال کی جیل کاٹ کر آیا ہے، وہ ٹھاکر کے باغ سے آم چرا کر بدلیا کے لئے لے جاتا ہے، بدلیا اسے دیکھ کر دہشت کی وجہ سے چیخ پڑتی ہے، اس کی نندیں اور ساس اس پر بدکرداری کا الزام لگاتی ہیں، اور مارنا پیٹنا شروع کرتی ہیں۔ وہ گھبرا کر بھاگتی ہے تو اسے راستے میں چندی مل جاتا ہے اور وہ سمجھا بجھا کر اسے اپنی بیوی بننے پر راضی کر لیتا ہے۔ جب وہ چمر ٹولی سے گزرتا ہے تو جیسے سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور کوئی بھی چندی کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں کرتا۔

بٹی

اس کہانی میں عورت کی فطری شرم و حیا اور مشرقی اقدار روایات کو بیان کیا گیا ہے۔ بٹی ایک انگریز نوجوان لڑکی ہے جو اپنی دوست کی سال گرہ میں لاری سے الہ آباد جا رہی ہے۔ باوجود انگریز ہونے کے وہ انتہا درجہ کے جھینپو  لڑکی ہے کہ کہیں کوئی لڑکا اسے چھیڑ نہ دے۔ وہ جس ڈبے میں بیٹھی ہوتی ہے اسی میں ایک ہندوستانی جوڑا سوار ہوتا ہے جو وضع قطع سے پڑھا لکھا معلوم ہوتا ہے لیکن بٹی کے اندر حاکمیت کا خون جوش مارتا ہے اور وہ انہیں حقارت سے دیکھتی ہے۔ اسی دوران ایک انیگلو انڈین فوجی اس کے پاس آ کر بیٹھتا ہے اور بے تکلف ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر وہ سگریٹ نکالتا ہے تو ہندوستانی نوجوان اسے منع کرتا ہے اور تب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ڈبہ ریزرو ہے لیکن اگر وہ سگریٹ نہ پیے تو دونوں میاں بیوی بیٹھ سکتے ہیں۔ میاں بیوی کا لفظ سن کر بٹی کے حواس گم ہو جاتے ہیں لیکن وہ اس جھوٹ کی اس لئے تردید نہیں کرتی کہ پھر اسے ڈبہ چھؤڑ کر کالے ہندوستانیوں کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ نوجان کو شہ مل جاتی ہے اور پھر وہ اور زیادہ بے تکلف ہو جاتا ہے۔ بٹی کو اس کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نوجوان  یتیم ہے اور اس کے دوست، استاد کے علاوہ اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ الہ آباد پہنچ کر بٹی شدت جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہے اور وہ اینگلو انڈین لڑکے کے ساتھ اس کے ہوٹل چلی جاتی ہے۔۔۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے