آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا
اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا
عزیز محمد خان عزیز قیسیؔ یکم جولائی 1931ء کو حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمود خان گورنمنٹ سروس میں تھے۔ کم عمری میں شاعری کا چسکا لگ گیا۔ ان کے گھر میں دینداری تھی۔ 1957ء میں عزیز قیسی ممبئی آئے۔ یہاں انہوں نے شعر و ادب کے میدان میں شہسواری کی اور نام کیا۔ ساتھ میں فلموں کے گانے اور کہانیاں بھی لکھیں۔ رسالوں اور اخباروں میں ان کی غزلیں چھپنے لگیں۔ ریڈیو پر بھی آپ کا کلام سنا جانے لگا۔ ممبئی میں آنے کے بعد کئی فلموں کے گانے کے مکھڑے لکھے۔ یہ انہیں پسند نہیں تھا اس لئے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں نوکری کر لی۔ لیکن اپنی طبیعت کی گرم مزاجی انہیں کسی ایک جگہ مسلسل ٹکنے نہیں دیتی تھی۔ ’’انقلاب‘‘ چھوڑ کر پھر فلم کی طرف آئے ’’ہم کہاں جا رہے ہیں‘‘ کی کہانی لکھی۔ ’’بنسی برجو‘‘ کی کہانی لکھی۔ سب سے کامیاب ’’انکور‘‘ کے مکالمے تھے۔ ’’دیاوان‘‘ کی کہانی بہت مشہور ہوئی۔
ان کی کتابیں ’’آئینہ در آئینہ‘‘، ’’گردبار‘‘، ناول ’’دوسرے کنارے تک‘‘ شائع ہوئے۔ ان کے افسانے بڑے کامیاب تھے۔ مے نوشی کی عادت حد سے زیادہ تھی۔ اس بات کو وہ کسی سے چھپاتے نہیں تھے۔ شراب کی ایک صراحی مشاعرے میں کبھی شہر سے باہر جانا ہو تو اپنے ساتھ لئے رہتے تھے۔ وہ اپنی برانڈ ہی پیتے تھے۔ عزیز قیسی جدید رنگ کے شعر کہنے والوں میں بڑے ذہین تھے وہ جہاں جہاں جدیدیے کو پٹری سے اترتے دیکھتے اس کی بھی مخالفت کرتے تھےان کے لئے روایات کا احترام بھی ضروری تھا۔ ۳۰ ستمبر ۱۹۹۲ کو ان کا انتقال ہوا ۔