حبیب ہاشمی کے اشعار
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری ہے مگر
سب کی تابندہ سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
سفر کی آخری منزل میں پاس آیا ہے
تمام عمر تھا جو دور آسماں کی طرح
شب کی تنہائی میں ابھری ہوئی آواز جرس
صبح گائی کا گجر ہو یہ ضروری تو نہیں
سرحد دشت سے آبادی کو جانے والو
شہر میں اور بھی خوں ریز نظارے ہوں گے
نہ میں خستہ حال ہوتا نہ یہ اجنبی سے لگتے
یہ حسیں حسیں فرشتے مجھے آدمی سے لگتے