جاوید اختر
غزل 53
نظم 32
اشعار 49
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے
کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا
خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قطعہ 4
کتاب 31
تصویری شاعری 4
یہ جیون اک راہ نہیں اک دوراہا ہے پہلا رستہ بہت سہل ہے اس میں کوئی موڑ نہیں ہے یہ رستہ اس دنیا سے بے_جوڑ نہیں ہے اس رستے پر ملتے ہیں ریتوں کے آنگن اس رستے پر ملتے ہیں رشتوں کے بندھن اس رستے پر چلنے والے کہنے کو سب سکھ پاتے ہیں لیکن ٹکڑے ٹکڑے ہو کر سب رشتوں میں بٹ جاتے ہیں اپنے پلے کچھ نہیں بچتا بچتی ہے بے_نام سی الجھن بچتا ہے سانسوں کا ایندھن جس میں ان کی اپنی ہر پہچان اور ان کے سارے سپنے جل بجھتے ہیں اس رستے پر چلنے والے خود کو کھو کر جگ پاتے ہیں اوپر اوپر تو جیتے ہیں اندر اندر مر جاتے ہیں دوسرا رستہ بہت کٹھن ہے اس رستے میں کوئی کسی کے ساتھ نہیں ہے کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے اس رستے میں دھوپ ہے کوئی چھاؤں نہیں ہے جہاں تسلی بھیک میں دے دے کوئی کسی کو اس رستے میں ایسا کوئی گاؤں نہیں ہے یہ ان لوگوں کا رستا ہے جو خود اپنے تک جاتے ہیں اپنے آپ کو جو پاتے ہیں تم اس رستے پر ہی چلنا مجھے پتا ہے یہ رستہ آسان نہیں ہے لیکن مجھ کو یہ غم بھی ہے تم کو اب تک کیوں اپنی پہچان نہیں ہے