مخمور سعیدی
غزل 36
نظم 8
اشعار 21
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی
آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
گھر میں رہا تھا کون کہ رخصت کرے ہمیں
چوکھٹ کو الوداع کہا اور چل پڑے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
دوہا 6
کتاب 338
تصویری شاعری 5
نئے نئے لفظ شور کرتے بڑھے چلے آ رہے ہیں فکر و خیال کی رہ_گزر آباد ہو رہی ہے زباں بہت سی پرانی حد_بندیوں سے آزاد ہو رہی ہے کئی فسانے جو ان_کہے تھے کئی تصور جو بے_زباں تھے ہزار عالم نشاط و غم کے جو پہلے نا_قابل_بیاں تھے وہ دھڑکنیں خامشی ہی جن کے خروش_پنہاں کی ترجماں تھی وہ نغمگی جو خموشیوں کے سیاہ زنداں میں پر_فشاں تھی اسے اب آخر کھلی فضاؤں میں اذن_پرواز مل گیا ہے کہ اک نیا رشتہ خیال_و_آواز مل گیا ہے مگر مجھے چپ سی لگ گئی ہے نئے نئے لفظ شور کرتے بڑھے چلے آ رہے ہیں اور میں ہجوم_پر_شور میں اکیلا پرانے لفظوں کو ڈھونڈتا ہوں یہ دیکھتا ہوں جہاں جہاں کل پرانے لفظوں نے ڈال رکھے تھے اپنے ڈیرے وہاں نئے لفظ آ کے آباد ہو گئے ہیں مکاں اگرچہ اجڑ نہ پائے مکین برباد ہو گئے ہیں نئے نئے لفظ شور کرتے بڑھے چلے آ رہے ہیں لیکن پرانے لفظوں کی پائمالی نے دم بہ_خود کر دیا ہے مجھ کو کسی نے سوچا نہیں ہے شاید مگر میں اکثر یہ سوچتا ہوں پرانے لفظوں کے ساتھ ہی اک پرانی دنیا بھی کھو گئی ہے خاموشیوں کے سیاہ_زنداں میں جا کے روپوش ہو گئی ہے