مخمور سعیدی کے دوہے
صاف بتا دے جو تو نے دیکھا ہے دن رات
دنیا کے ڈر سے نہ رکھ دل میں دل کی بات
کون مسافر کر سکا منزل کا دیدار
پلک جھپکتے کھو گئے راہوں کے آثار
ڈوبنے والوں پر کسے دنیا نے آوازے
ساحل سے کرتی رہی طوفاں کے اندازے
کچھ کہنے تک سوچ لے اے بد گو انسان
سنتے ہیں دیواروں کے بھی ہوتے ہیں کان
تنہا تو رہ جائے گا کوئی نہ ہوگا ساتھ
جیسے ہی یہ لوگ ہیں پکڑ انہی کا ہاتھ
روش روش پر باغ ہیں کانٹے کلیاں پھول
میں نے کانٹے چن لیے ہوئی یہ کیسی بھول