عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
عبیداللہ نام اور تخلص علیم تھا۔۱۲؍جون ۱۹۴۱ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ان کے والد سیالکوٹ سے نقل مکانی کرکے بھوپال میں آباد ہوگئے تھے۔ اس اعتبار سے ان کی پدری زبان پنجابی اور مادری زبان اردو تھی۔ بچپن سے انھیں اچھے شعر یاد کرنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے ۔میٹرک کے بعدپوسٹ آفس کے سیونگ بینک میں ڈیڑھ سال تک ملازم رہے۔ پھر تقریبا دوسال تک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس میں کام کیا۔۱۹۵۹ء سے انھوں نے باقاعدگی سے شعر کہنا شروع کیا۔ عبید اللہ علیم نے کراچی سے اردومیں ایم اے کیا۔گیارہ سال تک کراچی ٹیلی وژن میں پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے۔ اپنا ماہ نامہ ’’نئی نسلیں‘‘ بھی شائع کرتے رہے۔۱۸؍ مئی ۱۹۹۸ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’چاند،چہرہ، ستارہ، آنکھیں‘‘ ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا جس پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ویراں سرائے کا دیا‘‘۱۹۸۶ء میں چھپا۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:’’ نگار صبح کی امیدیں‘‘، ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘(کلیات)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:350
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : no2003011048