قرۃالعین حیدر کے افسانے
نظارہ درمیاں ہے
تارا بائی کی آنکھیں تاروں کی ایسی روشن ہیں اور وہ گرد وپیش کی ہر چیز کو حیرت سے تکتی ہے۔ در اصل تارا بائی کے چہرے پر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں۔ وہ قحط کی سوکھی ماری لڑکی ہے۔ جسے بیگم الماس خورشید عالم کے ہاں کام کرتے ہوئےصرف چند ماہ ہوئے ہیں۔ اور وہ اپنی
آوارہ گرد
دنیا کی سیر پر نکلے ایک جرمن لڑکے کی کہانی۔ وہ پاکستان سے ہندوستان آتا ہے اور بمبئی میں ایک سفارشی میزبان کے یہاں قیام کرتا ہے۔ رات کو کھانے کی میز پر وہ اپنے میزبان سے جرمنی، دوسری عالمی جنگ، نازی اور اپنے ماضی کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ ہندوستان سے وہ شری لنکا جاتا ہے، دوران سفر ایک سنگھلی بودھ اس کا دوست بن جاتا ہے۔ وہ دوست اسے ندی میں نہانے کی دعوت دیتا ہے اور خود ڈوب کر مر جاتا ہے۔ لنکا سے ہوتا ہوا وہ سیلانی لڑکا ویتنام جاتا ہے۔ ویتنام میں جنگ جاری ہے اور جنگ کی ایک گولی اس یوروپی آوارہ گرد نوجوان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
پت جھڑ کی آواز
یہ کہانی کے مرکزی کردار تنویر فاطمہ کی زندگی کے تجربات اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ تنویر فاطمہ ایک اچھے خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی ہے لیکن زندگی جینے کا فن اسے نہیں آتا۔ اس کی زندگی میں یکے بعد دیگرے تین مرد آتے ہیں۔ پہلا مرد خشوقت سنگھ ہےجو خود سے تنویر فاطمہ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ دوسرا مرد فاروق، پہلے خشوقت سنگھ کے دوست کی حیثیت سے اس سے واقف ہوتا ہے اور پھر وہی اسکا سب کچھ بن جاتا ہے۔ اسی طرح تیسرا مرد وقار حسین ہے جو فاروق کا دوست بن کر آتا ہے اور تنویر فاطمہ کو ازدواجی زندگی کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے۔ تنویر فاطمہ پوری کہانی میں صرف ایک بار اپنے مستقبل کے بارے میں خوشوقت سنگھ سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ فیصلہ اس کے حق میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی میں آئے اس پہلے مرد خشوقت سنگھ کو کبھی بھول نہیں پاتی ہے۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
یہ کہانی مغربی جرمنی میں جا رہی ایک ٹرین سے شروع ہوتی ہے۔ ٹرین میں پانچ لوگ سفر کر رہے ہیں جن میں ایک پروفیسر اور اس کی بیٹی، ایک کناڈا کی لڑکی اور ایک ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی ہیں۔ شروع میں سب خاموش بیٹھے رہتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپس میں بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ دوران گفتگو کینیڈین لڑکی ایرانی پروفیسر سے متاثر ہوتی ہے اور اسے پسند کرنے لگتی ہے۔ ٹرین کا سفر ختم ہونے کے بعد بھی وہ آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ایک ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ چاروں طرف جنگ کا ماحول ہے، ایران میں تحریکیں زوروں پر ہیں کہ ایرپورٹ پر دھماکہ ہوتا ہے۔ اس بم دھماکے میں ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی مارے جاتے ہیں۔ اس حادثے کا کینیڈین لڑکی کے ذہن پر جو اثر پڑتا ہے، کہانی کا انجام ہے۔
پالی ہل کی ایک رات
ڈرامے کی شکل مٰیں لکھا گیا ایک ایسا افسانہ ہے جس کے سارے کردار علامتی ہیں۔ افراد خانہ جب عبادت کی تیاری میں مصروف تھا جبھی بارش میں بھیگتا ہوا ایک غیر ملکی جوڑا دروازے پر دستک دیتا ہے اور اندر چلا آتا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ نو وارد کا تعلق ایران سے ہے۔ اس کے بعد واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔
روشنی کی رفتار
کہانی ’روشنی کی رفتار‘ قرۃالعین حیدر کی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ کہانی میں حال سے ماضی کے سفر کی داستان ہے۔ صدیوں کے فاصلوں کو لانگھ کر کبھی ماضی کو حال میں لاکر اور کبھی حال کو ماضی کے اندر بہت اندر لے جا کر انسانی زندگی کے اسرار و رموز کو دیکھنے، سمجھنے اور اسکے حدود و امکانات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
ستاروں سے آگے
کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ طلبا کے ایک گروپ کی کہانی جو رات کی تاریکی میں گاؤں کے لیے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ سبھی ایک بیل گاڑی میں سوار ہیں اور گروپ کا ایک ساتھی ماہیا گا رہا ہے دوسرے اسے غور سے سن رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں کوئی ٹوک دیتا ہے اور تیسرا اس کا جواب دینے لگتا ہے۔ دیا گیا جواب فقط ایک جواب نہیں ہے بلکہ انکے احساسات بھی اس میں شامل ہیں۔
فوٹوگرافر
شمال مشرق کے ایک پرسکون قصبے میں واقع ایک ڈاک بنگلے کے فوٹوگرافر کی کہانی۔ ڈاک بنگلے میں گاہے ماہے ٹورسٹ آتے ہیں، جن سے کام پانے کی غرض سے اس نے ڈاک بنگلے کے مالی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ انھیں ٹورسٹوں میں ایک شام ایک نوجوان جوڑا ڈاک بنگلے میں آتا ہے۔ نوجوان موسیقار ہے اور لڑکی رقاصہ۔ دونوں بےحد خوش ہیں اور اگلے دن باہر گھومنے جاتے وقت وہ فوٹوگرافر سے فوٹو بھی کھینچواتے ہیں، لیکن لڑکی فوٹو ساتھ لے جانا بھول جاتی ہے۔ پندرہ سال بعد اتفاق سے لڑکی پھر اسی ڈاک بنگلے میں آتی ہے اور فوٹو گرافر کو وہاں پا کر حیران ہوتی ہے۔ فوٹو گرافر بھی اسے پہچان لیتا ہے اور اسکے ساتھی کے بارے میں پوچھتا ہے۔ ساتھی جو زندگی کی رفتار میں کہیں کھو گیا اور اسے کھوئے ہوئے مدت ہو گئی ہے۔
جلاوطن
یہ مشترکہ تہذیب کے بکھرنے کی کہانی ہے۔ اس مشترکہ تہذیب کی جسے برصغیر میں رہنے بسنے والوں کی صدیوں کے میل جول اور یکجہتی کا نمونہ مانا جاتا ہے۔ اس کہانی میں رشتوں کے ٹوٹنے، خاندانوں کے بکھرنے اور ماضی کے بہترین انسانی قدروں کے پامال ہونے کی ٹریجڈی کو پیش کیا گیا ہے۔
مونا لسا
اس کہانی میں واقعات کو کم، ذہنی کیفیت اور دلی احساسات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ان احساسات میں ملن ہے، محبت اور جدائی ہے۔ وقت کی مناسبت سے کئی کردار ابھرتے اور ماند پڑ جاتے ہیں۔ ہر کسی کی اپنی کہانی ہے، مگر جو کہانی کہتا ہے، اس کی خود کی کہانی کہیں دھندلی پڑ جاتی ہے۔
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
ایک ایسے شخص کی کہانی جو محبت تو کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر پاتا۔ پڑوسی ہونے کے باوجود وہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتا تھا، اس کے والد کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہونے کے باوجود وہ ان لوگوں سے ملنے آتا رہا۔ گھر والے سوچتے رہے کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی سے محبت کرتا ہے مگر وہ تو بڑی بیٹی سے محبت کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ وہ اسے ایک بار ڈارلنگ کہہ سکے۔
پرواز کے بعد
یہ دلی احساسات اور خواہشات کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ اس میں حادثات کم اور واقعات زیادہ ہیں۔ دو لڑکیاں جو ساتھ پڑھتی ہیں ان میں سے ایک کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے مگر وہ شخص اسے مل کر بھی مل نہیں پاتا اور بچھڑنے کے بعد بھی جدا نہیں ہوتا۔ کہا جائے تو یہ وصال و ہجر کی کہانی ہے، جسے ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے۔
اودھ کی شام
افسانے میں اودھ یعنی لکھنؤ کی ایک شام کا ذکر ہے جس میں ایک انگریز لڑکا ایک ہندوستانی لڑکی کو ساتھ ناچنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ لڑکی اس کے ساتھ رقص کرتی ہے اور تحریک آزادی، اودھ کی سلطنت اور اسکے رسم و رواج اور رونق کی داستان بیان کرتی ہے۔
قلندر
غازی پور کے گورنمنٹ ہائی اسکول کی فٹ بال ٹیم ایک دوسرے اسکول سے میچ کھیلنے گئی تھی۔ وہاں کھیل سے پہلے لڑکوں میں کسی چھوٹی سی بات پر جھگڑا ہوا اور مارپیٹ شروع ہوگئی۔ اور چونکہ کھیل کے کسی پوائنٹ پر جھگڑا شروع ہوا تھا، تماشائیوں اور اسٹاف نے بھی دل چسپی
کارمن
امیر اور متمول خاندان کے ایک نوجوان کے ذریعے ایک غریب لڑکی کے استحصال کی روایتی کہانی ہے جو لڑکی کے بے غرض محبت کی ٹریجڈی ہے۔ کہانی میں سادگی، دلکشی اور جاذبیت ہے۔ قاری آخر میں کہانی کے انجام سے واقف تو ہو جاتا ہے لیکن اس کی تسلی نہیں ہوتی، شاید یہ کہانی کی خوبصورتی ہے۔
ایک مکالمہ
الف : گرمیوں کا مہینہ جارہا ہے۔ ہم ایک قدم اور قبر کی طرف بڑھا چکے ہیں۔ دوپہر کو بگولے اڑتے ہیں۔ غریبوں کے محلوں میں لوگ دھڑا دھڑ مر رہے ہیں۔ ب : سنا ہے بڑی سخت وبا پھیلی ہے۔ الف : ہاں۔ وبا پھیلی ہے اور لوگ مرتے ہیں۔ اگر نہ مریں تو دنیا کی
برف باری سے پہلے
ایک ناکام محبت کی کہانی جو تقسیم سے پہلے مسوری میں شروع ہوئی تھی۔ اپنے دوست کے ساتھ سیر کرتے ہوئے جب اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا تو اسے دیکھتے ہی یہ احساس ہوا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جسکی اسے تلاش تھی۔ یہ محبت شروع ہوتی اس سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی اور پھر ملک تقسیم ہو گیا اور سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا۔
رقص شرر
پارٹ وَن۔۔۔ کشتی پر جیسو مرایا! ہُم۔ جیسو مرایا !! (بالکل ولایتی ہو) اوہ۔ ادھر دیکھو ۔ چھتر منزل کے نیچے نیچے درختوں کے سائے میں گومتی کا رنگ کتنا گہرا سبز نظر آرہا ہے۔ تمہاری آنکھوں کا رنگ بھی تو ایسا ہی ہے۔ دھندلا سا سبز اور چھلکتا
ہم لوگ
ہاؤ۔۔۔ ہوّہ۔۔۔ ہلو لیو ٹیننٹ۔۔۔ اہم۔۔۔ ٹٹ ٹٹ۔۔۔ فلکس۔۔۔ یپ۔۔۔ مے فیئر۔۔۔ یاہ۔۔۔ او کے۔۔۔ ٹیڈل اووسویٹی پائی۔۔۔ چیریوسیم۔۔۔ اور دوسرے لمحے ریٹا میری بہن نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ جیسے آپ ایک بار پلک جھپک کر کہیں ’’جیک رو بنسن‘‘ میری آٹھ سلنڈرز والی
ٹوٹتے تارے
انجیر اور زیتون کے درختوں اور ستارۂ سحری کے پھولوں سے گھری ہوئی کسی جھیل کے خاموش اور پر سکون پانیوں میں زور سے ایک پتھر پھینکنے سے لہروں کا لحظہ بہ لحظہ پھیلتا ہوا ایک دائرہ سا بن جاتا ہے نا! یا جب کوئی تھکا ہارا مطرب رات کے پچھلے پہر اپنے رباب پر
جہاں کارواں ٹھہرا تھا
اس سنسان اکیلی روش پر نرگس کی پتیوں کا سایہ جھک گیا۔ بیکراں رات کی خاموشی میں چھوٹے چھوٹے خداؤں کی سرگوشیاں منڈلا رہی تھیں۔ پیانو آہستہ آہستہ بجتا رہا اور اسے ایسا لگا جیسے ساری دنیا، ساری کائنات ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے اور اس وسیع خلا میں
لکڑ بگّے کی ہنسی
ہمالیہ اور شوالک کی درمیانی وادیاں ’ڈون‘ کہلاتی ہیں (جن میں سے ایک دہرہ دون ہے) سوا سو مربع میل پر پھیلا ہوا کوربٹ نیشنل پارک بھی ضلع نینی تال کی ایک ڈون میں واقع ہے۔ رام گنگا پہاڑوں سے اتر کر کوربٹ نیشنل پارک میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے ایک کنارے پر پہاڑی
آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا!
جولائی ۴۴ء کی ایک ابر آلود سہ پہر جب وادیوں اور مکانوں کی سرخ چھتوں پر گہرا نیلا کہرا چھایا ہوا تھا اور پہاڑ کی چوٹیوں پر تیرتے ہوئے بادل برآمدوں کے شیشوں سے ٹکڑا رہے تھے۔ سوائے کے ایک لاؤنج میں، تاش کھیلنے والوں کے مجمع سے ذرا پرے ایک میز کے گرد وہ
میں نے لاکھوں کے بول سہے
خالدہ توفیق درختوں کے جھرمٹ میں نمودار ہو کر سیدھی میری جانب چلی آرہی تھی۔ اس کے بال شانوں پر بکھرے پڑے تھے۔ جن میں اس نے زرد رنگ کے دو جنگلی پھول اڑس رکھے تھے۔ دور سے وہ شانتی نکیتن کی کوئی بنگالی طالب علم معلوم ہو رہی تھی جو آمی کوشی موشی قسم کی
ڈالن والا
یہ کہانی بچپن کی یادوں کے سہارے اپنے گھر اور گھر کے وسیلے سے ایک پورے علاقے اور اس علاقے کے ذریعے سماج کے مختلف اشخاص کی زندگی کی چلتی پھرتی تصویریں پیش کرتی ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے، علاحدہ عقائد اور ایمان رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنے مسائل اور مراتب سے بندھے ہوئے ہیں۔
یہ باتیں
میرے دماغ میں اتنے بہت سے خیالات تیزی سے رقص کررہے ہیں۔۔۔ یہ بے معنی اور بے سروپا باتیں۔۔۔ نہ معلوم میرے چھوٹے سے سر میں اتنی ساری باتیں کیسے ٹھونس دی گئیں۔۔۔ میرا بے چارہ چھوٹا سا سر۔۔۔ بالوں کی سیاہ لٹوں میں لپٹا ہوا۔۔۔ میرے سیاہ بال اور نیلی آنکھیں
ایں دفتر بے معنی۔۔۔
نہ جانے کیسا پاگل پن تھا۔ انوکھا اور دل چسپ۔ پر اب تو کہکشاں کا یہ نقرئی راستہ پریوں کی سرزمین تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔ کیسی تھکن، کیسی اکتاہٹ، کیسی بے کیفی۔ آدھے جلے ہوئے سگرٹوں کا بجھا بجھا دھواں فرن کے خشک پتّوں کے اوپر سے گزرتا ہوا اندھیرے
ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی
یہ ایک تجرباتی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سینٹرل ایشیا کی روایات، رسم و رواج اور مذہبی عقائد کو مرکزی خیال بنایا گیا ہے۔ کہانی بیک وقت حال سے ماضی میں اور ماضی سے حال میں چلتی ہے۔ یہ دور عثمانیہ کے کئی واقعات کو بیان کرتی ہے، جن میں پیر و مرشد ہیں اور ان کے مرید ہیں، فقیر ہیں اور ان کا خدا اور رسول سے روحانی رشتہ ہے۔ ایک اہم خاتون کردار جس کا شوہر لاپتہ ہو گیا ہے، اس کی تلاش کے لیے ایک ایسے ہی بابا سے ملنے ایک عورت کا خط لے کر جاتی ہے۔ وہ اس بابا کی روحانی کرشموں سے روبرو ہوتی ہے جنہیں عام طور پر انسان نظر انداز کر دیتا ہے۔