پریم چند کے معاصرین میں ایک اہم نام سجاد حیدر یلدرمؔ کا ہے۔ نہٹور ضلع بجنور ان کا وطن ہے۔ یہیں 1880ء میں ان کی ولادت ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ آئے ترکی زبان و ادب سے انہیں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ ترقی افسانوں نے انہیں خاص طور پر متاثر کیا۔ تعلیم سے فارغ ہوئے تو ترقی زبان سے واقفیت کے سبب عراق کے ترکی سفارت خانے میں ترجمان کی حیثیت سے تقرر ہوگیا۔ مختلف ملازمتوں کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے۔ آخرکار لکھنؤ میں اقامت اختیار کی۔ یہیں 1943ء میں وفات پائی۔
یلدرمؔ کی یہ کوشش قابل ستائش ہے کہ انہوں نے تراجم کے ذریعے اردو ادب کے ذخیرے میں اضافہ کیا۔ انہوں نے ترقی افسانوں کو اردو کا پیراہن عطا کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترقی معاشرت کا بھی گہری نظر سے مطالعہ کیا اور اس انداز سے پیش کیا کہ ہمیں وہ اپنی معاشرت کا ہی ایک روپ نظر آتا ہے۔ یہ ترجمے ایسی سلیس اور شگفتہ زبان میں ہیں کہ ان پر ترجمے کا گمان نہیں ہوتا بلکہ یہ طبع زاد افسانے معلوم ہوتے ہیں۔
ترکی سے تھوڑے ہی فاصلے پر روس میں ایسے افسانے تخلیق ہو رہے تھے جو زندگی کی حقیقتوں کی نقاب کشائی کرتے ہیں لیکن ترقی افسانے پر رومانیت کا غلبہ تھا۔ ان افسانوں کے مطالعے اور ترجمے کا یہ نتیجہ نکلا کہ یلدرمؔ نے خود بھی جو افسانے لکھے ان میں رومانیت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ زبان کی نفاست اور سجاوٹ پر ان کی توجہ اتنی زیادہ ہے کہ اکثر ناگوار ہوتی ہے۔ ’’خیالستان‘‘ جو ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے اس میں روسی اور انگریزی افسانوں کے تراجم کے علاوہ یلدرمؔ نے اپنے طبع زاد افسانے بھی شامل ہیں۔