شہاب جعفری کی شاعری کا زمانہ وہ ہے جب ترقی پسند تحریک زوال پزیر تھی اور حلقہ اربابِ ذوق کا رجحان عروج پر تھا۔ شہاب جعفری بھی کچھ برسوں ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے لیکن ان کی شاعری پر ترقی پسندی کا اثر نہیں ہے۔ ان کی شاعری دراصل اس دور کے دونوں مکاتیبِ فکر، ترقی پسندی اور حلقہ اربابِ ذوق کی کشمکش کی پیداوار ہے، جس میں ان دونوں مکاتیبِ فکر کے تصوّرات کی تھرتھراہٹیں موجود ہیں۔
شہاب جعفری 2 جون 1930ء کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شہاب جعفری خالصہ کالج، دہلی یونیورسٹی، دہلی میں اردو کے استاد تھے۔ انہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن وقت اور حالات نے انہیں موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے ادبی سرمایوں کو منظر عام پر لاتے۔ اس لیے ان کا صرف ایک ہی مجموعہ کلام’’سورج کا شہر‘‘ 1967ء میں شائع ہو سکا۔
شہاب جعفری نے اپنی شاعری کی ابتدا تو غزلوں سے کی لیکن ان کے مجموعہ کلام میں نظمیں، غزلیں، رباعیات کے علاوہ ایک طویل منظوم تمثیلی ڈرامہ بھی ہے۔ انہیں شہرت نظموں کے علاوہ غزلوں کی وجہ سے بھی ملی۔
شاعری کے ساتھ تھیٹر سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے محمد حسن کے ساتھ لمبے عرصے تک کام کیا۔ شہاب جعفری کا مشہور شعر (تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا) بارہا پارلیمنٹ میں پڑھا گیا۔ روایت ہے کہ ایک بار اس شعر کو مولانا ابوالکلام آزاد نے پارلیمنٹ میں جواہر لال نہرو کو سنایا جبکہ اس وقت شہاب جعفری کی شاعری اپنے ابتدائی دنوں میں تھی۔ 1 فروری 2000ء کو وہ دہلی میں انتقال کر گئے-