آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرؔ سے شب
آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرؔ سے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشت غبار پایا
تشریح
شعر میں کنایہ بہت خوب ہے، یہ ظاہر نہیں کیا کہ ’’مشت غبار‘‘ میر کا ہی تھا۔ صرف اشارہ کر دیا ہے۔ اس بات کا بھی امکان رکھ دیا ہے کہ مشت غبار میر کا نہ ہو، بلکہ آس پاس کے خس و خاشاک کا ہو، جو آہ شرربار کے باعث جل اٹھے۔ یہ امکان اس وجہ سے ہے کہ ’’میر سے‘‘ کے معنی ’’میر کی وجہ سے‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر ’’میر سے‘‘ کے معنی ’’میر کے دل سے‘‘ قراد دیے جائیں تو مفہوم یہ ہوا کہ میر نالہ کرتے کرتے اپنی ہی آہوں کی گرمی کے باعث جل کر خاک ہو گیا۔ شعر میں عجب طرح کی ڈرامائیت ہے۔ اس مضمون کو اسی ڈرامائیت کے ساتھ، لیکن کنایاتی انداز کے بغیر میر نے یوں لکھا ہے؎
ایک ڈھیری راکھ کی تھی صبح جائے میر پر
برسوں سے جلتا تھا شاید رات جل کر رہ گیا
(دیوان دوم)
لوگوں نے پائی راکھ کی ڈھیری مری جگہ
اک شعلہ میرے دل سے اٹھا تھا چلا گیا
(دیوان ششم)
اردو میں بار بار کہنے کے علاوہ میر نے اس مضمون کو فارسی میں بھی دوبارہ نظم کیا ہے، لیکن وہ بات کہیں نہیں آئی؎
میر جائے کہ بہ نیران محبت می سوخت
صبح دیدیم بجا ماندہ کف خاک آں جا
(جس جگہ میر محبت کی آگ میں جل رہا تھا، وہاں صبح کو مٹھی بھر راکھ ہم نے پڑی ہوئی دیکھی۔)
دراں جائے کہ سرمی زد شب از من شعلۂ آ ہے
نہ شد معلوم آں جا صبح دم غیر از کف خاکے
(جس جگہ کہ رات کے وقت آہ کے شعلے میرے جسم سے بلند ہو رہے تھے، وہاں صبح کو مٹھی بھر راکھ کے سوا کچھ نہ دکھائی دیا۔)
شمس الرحمن فاروقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.