اب ترے ہجر میں یوں عمر بسر ہوتی ہے
دلچسپ معلومات
جنوری1971
اب ترے ہجر میں یوں عمر بسر ہوتی ہے
شام ہوتی ہے تو رو رو کے سحر ہوتی ہے
کیوں سر شام امیدوں کے دیئے بجھنے لگے
کتنی ویران تری راہ گزر ہوتی ہے
بے خیالی میں بھی پھر ان کا خیال آتا ہے
وہی تصویر مرے پیش نظر ہوتی ہے
یہ اودھ ہے کہ جہاں شام کبھی ختم نہیں
وہ بنارس ہے جہاں روز سحر ہوتی ہے
اپنے برباد نشیمن کو بھلا دیتا ہوں
جب سلگتے ہوئے گلشن پہ نظر ہوتی ہے
برق گرتی ہے تو خرمن کو جلا جاتی ہے
کب اسے محنت دہقاں کی خبر ہوتی ہے
ہائے پھولوں کے مقدر پہ بھی دل روتا ہے
زندگی ان کی بھی کانٹوں میں بسر ہوتی ہے
عارض غنچہ و گل اور دہک اٹھتے ہیں
اشک شبنم میں بھی تاثیر شرر ہوتی ہے
میں وہ محروم محبت ہوں کہ انوارؔ مری
جو دعا ہے وہی محروم اثر ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.