عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ
عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ
کہ دل نے پالا ہوا ہے ہر ایک ذات کا دکھ
تلاش جنت و دوزخ میں رائیگاں انساں
زمیں پہ روز مناتا ہے کائنات کا دکھ
کئی جھمیلوں میں الجھی سی بد مزہ چائے
اداس میز پہ دفتر کے کاغذات کا دکھ
تمام دن کی مصیبت تو بانٹ لی ہم نے
کبھی کہا ہی نہیں اپنی اپنی رات کا دکھ
گئے دنوں کا کوئی خواب دفن ہے شاید
کہ اب بھی آنکھ سے رستا ہے باقیات کا دکھ
امام تشنہ کی اولاد ٹھہری ہوں آخر
سو مجھ کو یکساں ملا راوی و فرات کا دکھ
نہ جانے مالک کن کس طرح نبھاتا ہے
یہ دسترس کی سہولت یہ ممکنات کا دکھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.