ابھی موجود تھی لیکن ابھی گم ہو گئی ہے
ابھی موجود تھی لیکن ابھی گم ہو گئی ہے
نہ جانے کس جہاں میں زندگی گم ہو گئی ہے
مرے ہم راہ کیوں وہ شخص چلنا چاہتا ہے
سفر کے جوش میں کیا آگہی گم ہو گئی ہے
سبھی خوش ہیں کہ سارے گمشدہ پھر مل گئے ہیں
مجھے غم ہے کہ اب تیری کمی گم ہو گئی ہے
مرے ہونٹوں کو دریا نے کیا سیراب لیکن
حیات افروز دل کی تشنگی گم ہو گئی ہے
میں اس سے مدتوں کے بعد دوبارہ دوبارا ملا ہوں
خوشی تو ہے مگر وارفتگی گم ہو گئی ہے
یہ کن تشنہ لبوں کی فوج گزری ہے ادھر سے
کہیں کچھ کم کہیں پوری ندی گم ہو گئی ہے
ہمیشہ جو مجھے اذن سخن دیتی رہی تھی
ہجوم شور میں وہ خامشی گم ہو گئی ہے
میں اس کی یاد سے بس ایک پل کو گم ہوا تھا
مگر لگتا ہے جیسے اک صدی گم ہو گئی ہے
بہ طور رسم ہی کار جنوں باقی ہے مجھ میں
وگرنہ دشت سے وابستگی گم ہو گئی ہے
سلیمؔ اس میں زیادہ فرق تو اب بھی نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تھوڑی سادگی گم ہو گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.