اگر میں سچ کہوں تو صبر ہی کی آزمائش ہے
اگر میں سچ کہوں تو صبر ہی کی آزمائش ہے
یہ مٹی امتحاں پیارے یہ پانی آزمائش ہے
نکل کر خود سے باہر بھاگنے سے خود میں آنے تک
فرار آخر ہے یہ کیسا یہ کیسی آزمائش ہے
تلاش ذات میں ہم کو کسی بازار ہستی میں
ترا ملنا ترا کھونا الگ ہی آزمائش ہے
نبود و بود کے پھیلے ہوئے اس کارخانے میں
اچھلتی کودتی دنیا ہماری آزمائش ہے
مرے دل کے دریچے سے اچک کر جھانکتی باہر
گلابی ایڑیوں والی انوکھی آزمائش ہے
یہ تو جو خود پہ نافذ ہو گیا ہے شام کی صورت
تو جانی شام کی کب ہے یہ تیری آزمائش ہے
دیے کے اور ہواؤں کے مراسم کھل نہیں پاتے
نہیں کھلتا کہ ان میں سے یہ کس کی آزمائش ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.