بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
جھوٹ آ جائے تو سچائی چلی جاتی ہے
رات بھر جاگتے رہنے کا عمل ٹھیک نہیں
چاند کے عشق میں بینائی چلی جاتی ہے
میں نے اس شہر کو دیکھا بھی نہیں جی بھر کے
اور طبیعت ہے کہ گھبرائی چلی جاتی ہے
کچھ دنوں کے لیے منظر سے اگر ہٹ جاؤ
زندگی بھر کی شناسائی چلی جاتی ہے
پیار کے گیت ہواؤں میں سنے جاتے ہیں
دف بجاتی ہوئی رسوائی چلی جاتی ہے
چھپ سے گرتی ہے کوئی چیز رکے پانی میں
دور تک پھٹتی ہوئی کائی چلی جاتی ہے
مست کرتی ہے مجھے اپنے لہو کی خوشبو
زخم سب کھول کے پروائی چلی جاتی ہے
در و دیوار پہ چہرے سے ابھر آتے ہیں
جسم بنتی ہوئی تنہائی چلی جاتی ہے
- کتاب : دل پرندہ ہے (Pg. 31)
- Author : شکیل اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.