بدن کے لقمۂ تر کو حرام کر لیا ہے
بدن کے لقمۂ تر کو حرام کر لیا ہے
کہ خوان روح پہ جب سے طعام کر لیا ہے
بتاؤ اڑتی ہے بازار جاں میں خاک بہت
بتاؤ کیا ہمیں اپنا غلام کر لیا ہے
یہ آستانۂ حسرت ہے ہم بھی جانتے ہیں
دیا جلا دیا ہے اور سلام کر لیا ہے
مکاں اجاڑ تھا اور لا مکاں کی خواہش تھی
سو اپنے آپ سے باہر قیام کر لیا ہے
بس اب تمام ہو یہ وہم و اعتبار کا کھیل
بساط الٹ دی سبھی سارا کام کر لیا ہے
کسی سے خواہش گفتار تھی مگر ثاقبؔ
وفور شوق میں خود سے کلام کر لیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.