برائے نام سہی کوئی مہربان تو ہے
دلچسپ معلومات
شمارہ 107 فروری تا اپریل 1979
برائے نام سہی کوئی مہربان تو ہے
ہمارے سر پہ بھی ہونے کو آسمان تو ہے
تری فراخ دلی کو دعائیں دیتا ہوں
مرے لبوں پہ ترے لمس کا نشان تو ہے
یہ اور بات کہ وہ اب یہاں نہیں رہتا
مگر یہ اس کا بسایا ہوا مکان تو ہے
سروں پہ سایہ فگن ابر آرزو نہ سہی
ہمارے پاس سرابوں کا سائبان تو ہے
علاوہ اس کے نہ کچھ اور پردہ رکھ مجھ سے
فصیل جسم مرے تیرے درمیان تو ہے
بچھڑ کے زندہ نہیں رہ سکیں گے ہم دونوں
مجھے یہ وہم تو ہے ان کو یہ گمان تو ہے
بھلی بری سہی موجوں میں اپنی ناؤ تو ہے
کٹا پھٹا سہی کہنے کو بادبان تو ہے
گل مراد نہیں سنگ ہائے طفل سہی
غریب شہر کا آخر کسی کو دھیان تو ہے
- کتاب : Shabkhoon (Urdu Monthly) (Pg. 1442)
- Author : Shabkhoon Po. Box No.13, 313 rani Mandi Allahabad
- مطبع : Shamsur Rahman Faruqi (June December 2005áIssue No. 293 To 299âPart II)
- اشاعت : June December 2005áIssue No. 293 To 299âPart II
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.