چلتے چلتے چلے آئے ہیں پریشانی میں
چلتے چلتے چلے آئے ہیں پریشانی میں
خواب تو دب چکے اس کوچے کی ویرانی میں
توڑ کر پاؤں پڑے ہیں کہ وہ ہمت نہ رہی
اڑتے بادل تھے کبھی چاک گریبانی میں
ہجر کی راہ میں چلتے رہے گرتے پڑتے
ساتھ کچھ بھی نہ لیا بے سر و سامانی میں
اس شہنشاہ کو میں کیسے شہنشاہ کہوں
سرحدیں ٹوٹتی ہوں جس کی جہاں بانی میں
پہنچے منزل پہ تو حاصل تھا فقط یاس و ہراس
عمر اک بیت گئی سلسلہ جنبانی میں
اس کے جانے پہ یہ احساس ہوا ہے شاہدؔ
وہ جزیرہ تھا مرا دکھ سے بھرے پانی میں
- کتاب : khvaab saraa (Pg. 105)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.