در بہ در کی خاک پیشانی پہ مل کر آئے گا
در بہ در کی خاک پیشانی پہ مل کر آئے گا
گھوم پھر کر راستہ پھر میرے ہی گھر آئے گا
سامنے آنکھوں کے پھر یخ بستہ منظر آئے گا
دھوپ جم جائے گی آنگن میں دسمبر آئے گا
شور کیسا اپنی آہٹ بھی نہ سن پاؤ گے تم
اس سفر میں ایسا سناٹا تو اکثر آئے گا
جس کی خاطر شیشۂ آواز روشن ہے بہت
اس کی جانب سے بھی خاموشی کا پتھر آئے گا
صحن دل میں کب سے تنہائی کے خیمے نصب ہیں
اب نہ شاید موسم ہنگامہ پرور آئے گا
زندگی بھر ہم اسی امید پر چلتے رہے
اب کے صحرا پار کر لیں تو سمندر آئے گا
منہدم ہو جائے گی اخترؔ فصیل انتشار
جب نواح جاں میں ویرانی کا لشکر آئے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.