دریا گزر گئے ہیں سمندر گزر گئے
دریا گزر گئے ہیں سمندر گزر گئے
پیاسا رہا میں کتنے ہی منظر گزر گئے
اس جیسا دوسرا نہ سمایا نگاہ میں
کتنے حسین آنکھوں سے پیکر گزر گئے
کچھ تیر میرے سینے میں پیوست ہو گئے
کچھ تیر میرے سینے سے باہر گزر گئے
آنسو بیان کرنے سے قاصر رہے جنہیں
کیا کیا نہ زخم ذات کے اندر گزر گئے
اک چوٹ دل پہ لگتی رہی ہے تمام شب
دل کی زمیں سے یادوں کے لشکر گزر گئے
وہ ضبط تھا کہ آہ نہ نکلی زبان سے
دل پہ ہمارے کتنے ہی خنجر گزر گئے
منزل تھی وہ کہ ہوتی گئی دور ہی ظفرؔ
کتنے ہی رہ میں میل کے پتھر گزر گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.