دشت مرعوب ہے کتنا مری ویرانی سے
دشت مرعوب ہے کتنا مری ویرانی سے
منہ تکا کرتا ہے ہر دم مرا حیرانی سے
لوگ دریاؤں پہ کیوں جان دیئے دیتے ہیں
تشنگی کا تو تعلق ہی نہیں پانی سے
اب کسی بھاؤ نہیں ملتا خریدار کوئی
گر گئی ہے مری قیمت مری ارزانی سے
خود پہ سو جبر کئے دل کو بہت سمجھایا
راس آئی کہاں دنیا ہمیں آسانی سے
اب یہ سمجھے کہ اندھیرا بھی ضروری شے ہے
بجھ گئیں آنکھیں اجالوں کی فراوانی سے
اجنبی آہٹیں انجان صدائیں مجھ میں
میں تو باز آیا خرابے کی نگہبانی سے
آ گیا کون یہ آج اس کے مقابل اسلمؔ
آئینہ ٹوٹ گیا عکس کی تابانی سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.