Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

مرزا غالب

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

    آخر اس درد کی دوا کیا ہے

    تشریح

    عشق کی بیماری اور اس کے علاج ہونے کا مضمون اردو شاعری میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ عموماً اس مضمون کا بیان مایوسانہ ہوتا ہے۔ غالبؔ نے ان سے ہٹ کر نئی بات کہی ہے۔ سب سے پہلے تو سمجھ لینا چاہیے کہ غالب کے اشعار میں عاشق اور اس کا دل دو جدا گانہ اکائیوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ان دونوں میں دوستی، محبت، یگانگت اور ہمدردری کا رشتہ ہے۔ کبھی کبھی دونوں آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی نظر آتے ہیں۔ زیر بحث شعر میں دو باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ ایک دل کو نادان کہنا اور دوسرا ’’تجھے ہوا کیا ہے‘‘ کا ٹکڑا۔ دل کو نادان کہہ کر شاعر نے شعر میں معنی کے کئی احکامات پیدا کر دیئے ہیں۔ دل اپنی ناسمجھی میں عشق کی چوٹ لگا بیٹھا ہے۔ سمجھدار ہوتا تو اس جنجال میں نہ پھنستا۔ دل کو معلوم ہی نہیں کہ اس کا درد عشق کا درد ہے۔ ’تجھے ہوا کیا ہے‘ کو دوطرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ ایک سوالیہ انداز میں کہ سوال کرنے والا جاننا چاہتا ہے کہ دل کو جو درد ہے اس کی نوعیت کیا ہے۔ شاید دل کو خود بھی نہیں معلوم کہ اسے کیا ہو گیا ہے یا پھر وہ درد کی کیفیت کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ اس کے چہرہ سے عیاں ہے۔ پھر اسی ٹکڑے کو ہلکی سی جھنجھلاہٹ اور بے بسی کے انداز میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ یعنی ’یہ تجھے کیا ہو گیا ہے‘ کہ سیدھی سی بات بھی تیری سمجھ میں نہیں آتی۔ مصرع میں معنی کے اتنے احکامات رکھنے کے بعد شاعر دوسرے مصرع ’’آخر اس درد کی دوا کیا ہے‘‘ میں ایک بار پھر معنی کے کئی احکامات رکھ دیتا ہے۔ ایک تو یہ کہ تیرا درد عشق کا درد ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ لیکن شاعر کو اپنے دوست یعنی دل سے ہمدردی ہے۔ وہ سیدھے اور سپاٹ لہجہ میں ایسی بات کہہ کر اس کو مزید غمگین یا مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اس سے سوال کرتا ہے۔ بھائی مجھ کو بتاؤ تمہارا یہ درد کیسے دور ہو سکتا ہے۔ میں تمہارے لیے کیا کروں۔ تمہارا یہ درد مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔ میں ہر طرح تمہاری مدد کو تیار ہوں۔ کہو تو تمہارے محبوب سے تمہاری ملاقات کرانے کی کوشش کروں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ ساری باتیں ناممکنات میں سے ہیں، شاعر نے اپنے دوست یعنی دل کے ساتھ اپنی محبت اور ہمدرددی کا اظہار کرتے ہوئے ڈھکے چھپے انداز میں یہ بھی بتا دیا کہ درد عشق کی کوئی دوا ہے ہی نہیں۔ شعر میں نادان دل کے ساتھ دوستی، ہمدردی اور مروت کے اشارے اتنے مضبوط ہیں کہ اصل بات یعنی دردِ عشق کی کوئی دوا نہیں، پردوں میں چھپ گئی ہے۔ لیکن ٹھریئے۔ شاعر نے پورے شعر میں عشق کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ ہم نے تو دل، درد اور دوا یہ تین الفاظ پڑھ کر جھٹ سے فیصلہ کر لیا کہ یہ عشق کا تذکرہ ہے، کیوں بھائی! یہ درد تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ انسانی زندگی تو درد سے بھری پڑی ہے اور اس درد کا علاج کم سے کم ابھی تک تو دریافت نہیں ہوا۔

    محمد اعظم

    موضوعات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے