دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں (ردیف .. ا)
دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
تشریح #1
غالب کے اس شعر کی بات کی جائے تو پہلے کچھ لفظ جو یہاں استعمال ہوئے ہیں ان کا معنی جان لیا جائے، جس سے شعر کو سمجھنا آسان ہو جائے۔ اس شعر میں دو بنیادی لفظ ایسے ہیں جن کو سب سے پہلے سمجھ لینا چاہیے۔ پہلا لفظ 'ذوق' ہے، جس کا معنی دلچسپی یا دل کا میلان یا liking یا ability to understand and appreciate something ہے۔ یہ لفظِ شوق عادت سے الگ ہے ، الگ ہی نہیں بلکل الگ ہے۔ شوق کے معنی تمنّا یا پسند یا عادت یا hobby لیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس شعر میں جو لفظِ ذوق استعمال ہوا ہے، اس کے معنی اور معنی کی وسعت یعنی اُس کا معنی اور معنی کی گہرائی کو سمجھ لینا چاہیے۔ دوسرا لفظ جو کسی قدر سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے وہ وصل ہے۔ وصل کو سیدھے طور پر संयोग , मिलन اور خاص طور پر प्रेमिका से मिलन کہہ سکتے ہیں۔
اب سب سے پہلے اس شعر کی لفظیات یا बुनत یا craft پر بات کریں گے اور اس کے بعد اس کے مفہوم یعنی ارتھ کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کریں گے۔ جہاں تک اس شعر میں الفاظ کی बुनत کا سوال ہے، یہ بہت ضروری ہے کہ اس پر غور کیا جائے کہ 'دل میں ذوقِ ِ وصل اور یاد ِ یار کا بھی باقی نہ رہنا اور پھر دوسرے مصرع میں اس گھر میں 'آگ کا لگنا'، گھر یعنی 'دل' جو کہ ملن کی آس اور خواہش سے بھرا رہتا ہے، اب آگ لگنے کی وجہ سے اس میں محبوب کی یاد اور محبوب سے ملن کی آس تک باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اس طرح الفاظ کا च्यन دونوں مصرعوں کو ایسے حسین ربط سے جوڑتا ہے کہ پہلی ہی نظر میں پڑھ کر یا ایک بار سن کر دل میں ایک ٹھہراؤ سا پیدا ہو جاتا ہے۔
دوسرا حصّہ اس شعر کے مفہوم اور تخیل کی بلندی کا ہے۔ اس شعر میں غالب پہلے تو اقرار کرتے ہیں کہ ان کا دل محبوب سے ملنے کی آس اور محبوب کے فکر و خیال سے بھرا رہتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اس دل پر دنیاوی دُکھ ، الم ، غم ، پریشانیاں ، فکریں ، مصیبتیں ایسی حاوی ہوئی ہیں کہ ان غموں اور پریشانیوں نے ایک آگ سی لگا دی ہے اور اس آگ میں دل کا سارا قیمتی سرمایا ، جس میں محبوب کی یاد بھی تھی اور محبوب سے ملنے کی آس بھی تھی، جل کر راکھ ہو گیا۔ دنیاوی دکھ اور پریشانیاں اس طرح دل پر پڑیں کہ دل کا سارا قیمتی سامان جس میں اپنے beloved کا تصور سب سے زیادہ قیمتی چیز تھا، وہ بھی جل گیا اور اس طرح دنیوی یا معاشی دکھ اور الجھنیں یعنی सभी सांसारिक परेशानियां عشق جیسے لطیف جذبے اور قیمتی تصور پر بھاری پڑ گئیں۔ شعر ایسا تاثر دیتا ہے کہ شاعر اس نقصان اور خسارے سے بہت پریشان ہو گیا اور اس کے لئے اپنی خیال ہی کی دنیا سے اپنے محبوب کو کھو دینا، اس کی زندگی کا اتنا بڑا خسارہ اور نقصان ہے کہ اسکو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اس کے دل میں جو کچھ تھا، سب کا سب جل گیا۔ سارا احساس ، سارا خیال ، سارا مال و متاع ، سب کا سب جل کر ختم ہو گیا۔ یعنی سارا کا سارا धरोहर ختم ہو گیا۔ اور اب ہر طرف بے بسی ہے، بے کسی ہے، بے سرو سامانی ہے جس کا اظہار دل کی ہر شے، ہر قیمتی شے کے جل جانے سے کیا جا رہا ہے۔ شعر میں بے بسی ایک اور تاثر پیدا کرتی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا ہے، مگر انھیں پرتوں کے بیچ کہیں نہ کہیں ایک بے بسی کی پرت بھی موجود ہے جس کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔
سہیل آزاد
تشریح #2
اس شعر کا مطلب ایک جملہ میں نپٹانا ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ اس میں شاعر نے اپنی افسردگی اور مایوسی کی انتہا بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اب اسے دنیا کی کسی چیز سے رغبت نہیں حتیٰ کہ نہ اس کو یار کی یاد آتی ہے اور نہ اس سے ملنے کو دل چاہتا ہے۔ لیکن بڑے شاعر کے شعر سے لطف لینے کے لیے اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کی تہہ میں غوطہ لگانا پڑتا ہے تب جا کر معنی کا موتی ہاتھ لگتا ہے۔ اس شعر کی تشریح کرنے والوں نے عموماً وہی معنی لکھ دیئے ہیں جو اوپر ایک جملہ میں بیان ہوئے ہیں۔ کچھ نے گھر میں لگی آگ پر توجہ دی ہے اور کہا ہے کہ گھر یعنی دل میں جو آگ لگی ہے وہ رشک کی ہے۔ رقیب اس کے معشوق کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے، یہ دیکھ کر عاشق معشوق کی طرف سے اتنا بد دل اور مایوس ہو جاتا ہے کہ وہ نہ اس کو یاد کرتا ہے نہ اس سے ملنے کو دل چاہتا ہے۔ آگ اور اس کی جلن یا رقیب پر معشوق کی مہربانیوں کا کوئی اشارہ غالبؔ نے خود نہیں کیا ہے اس لیے شعر کے معنی کو اس طرح محدود کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں۔ گھر کو آگ لگنے یا لگانے کا جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ کبیر کے اس دوہے سے واضح ہو جائے گا۔
کبِرا کھڑا بجار میں لیے لگاٹھی ہاتھ
جو گھر پھونکے آپنو چلے ہمارے ساتھ
اسی کو اردو میں مجروح سلطانپوری نے اس طرح اپنایا ہے:۔
جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے سات چلے
بہر حال غالبؔ نے گھر جلنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ لیکن اسی غزل میں ان کا شعر موجود ہے۔
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا
اس سوزِ نہاں کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ بہرحال مذکورہ بالا اشعار کے حوالہ سے دل یا گھر جلنے کا تصور واضح ہو گیا ہوگا۔ اب شعر کے دلچسپ پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔ ’’جو تھا جل گیا‘‘ کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ دل میں آرزؤں اور حسرتوں سمیت جو کچھ بھی تھا، سب جل گیا اور دوسرا یہ کہ دل میں ذوق وصل اور یاد یار کے سوا کچھ تھا ہی نہیں، سو وہ بھی جل گیا۔ اس معنی کو تقویت غالبؔ کے اس شعر سے ملتی ہے۔
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
تصویرِ بتاں ذوقِ وصل کو بھڑکانے کا سبب اور حسینوں کے خطوط ان کی یاد دلانے والی چیز۔ یہ شعر سوزِنہاں کی پیدا کردہ زبردست افسردگی، مایوسی اور دنیا بیزاری کی بے مثل تصویر پیش کرتا ہے۔
محمد اعظم
- کتاب : paiman-e-gazal-avval (Pg. 145)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.