Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں (ردیف .. ا)

مرزا غالب

دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں (ردیف .. ا)

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں

    آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

    تشریح

    غالب کے اس شعر کی بات کی جائے تو پہلے کچھ لفظ جو یہاں استعمال ہوئے ہیں ان کا ارتھ جان لیا جائے، جس سے شعر کو سمجھنا آسان ہو جائے۔ اس شعر میں دو بنیادی لفظ ایسے ہیں جن کو سب سے پہلے سمجھ لینا چاہیے۔ پہلا لفظ 'ذوق' ہے، جس کا ارتھ دلچسپی یا دل کا میلان یا liking یا ability to understand and appreciate something ہے. یہ لفظِ شوق عادت سے الگ ہے ، الگ ہی نہیں بلکل الگ ہے۔ شوق کے معنی تمنّا یا پسند یا عادت یا hobby لیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس شعر میں جو لفظِ ذوق استعمال ہوا ہے، اس کے معنی اور معنی کی وسعت یعنی اُس کا ارتھ اور ارتھ کی گہرائی کو سمجھ لینا چاہیے۔ دوسرا لفظ جو کسی قدر سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے وہ وصل ہے۔ وصل کو سیدھے طور پر संयोग , मिलन اور خاص طور پر प्रेमिका से मिलन کہہ سکتے ہیں۔

    اب سب سے پہلے اس شعر کی لفظیات یا बुनत یا craft پر بات کریں گے اور اس کے بعد اس کے مفہوم یعنی ارتھ کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کریں گے۔ جہاں تک اس شعر میں الفاظ کی बुनत کا سوال ہے، یہ بہت ضروری ہے کہ اس پر غور کیا جائے کہ 'دل میں ذوقِ ِ وصل اور یاد ِ یار کا بھی باقی نہ رہنا اور پھر دوسرے مصرع میں اس گھر میں 'آگ کا لگنا'، گھر یعنی 'دل' جو کہ ملن کی آس اور خواہش سے بھرا رہتا ہے، اب آگ لگنے کی وجہ سے اس میں محبوب کی یاد اور محبوب سے ملن کی آس تک باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اس طرح الفاظ کا च्यन دونوں مصرعوں کو ایسے حسین ربط سے جوڑتا ہے کہ پہلی ہی نظر میں پڑھ کر یا ایک بار سن کر دل میں ایک ٹھہراؤ سا پیدا ہو جاتا ہے۔

    دوسرا حصّہ اس شعر کے مفہوم اور تخیل کی بلندی کا ہے۔ اس شعر میں غالب پہلے تو اقرار کرتے ہیں کہ ان کا دل محبوب سے ملنے کی آس اور محبوب کے فکر و خیال سے بھرا رہتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اس دل پر دنیاوی دُکھ ، الم ، غم ، پریشانیاں ، فکریں ، مصیبتیں ایسی حاوی ہوئی ہیں کہ ان غموں اور پریشانیوں نے ایک آگ سی لگا دی ہے اور اس آگ میں دل کا سارا قیمتی سرمایا ، جس میں محبوب کی یاد بھی تھی اور محبوب سے ملنے کی آس بھی تھی، جل کر راکھ ہو گیا۔ دنیاوی دکھ اور پریشانیاں اس طرح دل پر پڑیں کہ دل کا سارا قیمتی سامان جس میں اپنے beloved کا تصور سب سے زیادہ قیمتی چیز تھا، وہ بھی جل گیا اور اس طرح دنیوی یا معاشی دکھ اور الجھنیں یعنی सभी सांसारिक परेशानियां عشق جیسے لطیف جذبے اور قیمتی تصور پر بھاری پڑ گئیں۔ شعر ایسا تاثر دیتا ہے کہ شاعر اس نقصان اور خسارے سے بہت پریشان ہو گیا اور اس کے لئے اپنی خیال ہی کی دنیا سے اپنے محبوب کو کھو دینا، اس کی زندگی کا اتنا بڑا خسارہ اور نقصان ہے کہ اسکو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اس کے دل میں جو کچھ تھا، سب کا سب جل گیا۔ سارا احساس ، سارا خیال ، سارا مال و متاع ، سب کا سب جل کر ختم ہو گیا۔ یعنی سارا کا سارا धरोहर ختم ہو گیا۔ اور اب ہر طرف بے بسی ہے، بے کسی ہے، بے سرو سامانی ہے جس کا اظہار دل کی ہر شے، ہر قیمتی شے کے جل جانے سے کیا جا رہا ہے۔ شعر میں بے بسی ایک اور تاثر پیدا کرتی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا ہے، مگر انھیں پرتوں کے بیچ کہیں نہ کہیں ایک بے بسی کی پرت بھی موجود ہے جس کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔

    سہیل آزاد

    مأخذ :
    • کتاب : paiman-e-gazal-avval (Pg. 145)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے